ایکنا نیوز، الجزیرہ نیوز چینل کے مطابق ترکی میں روزہ رکھنا محض ایک مذہبی فریضہ نہیں تھا، بلکہ بعض ادوار میں یہ اسلامی شناخت اور سیکولر پالیسیوں کے درمیان کشمکش کا میدان بھی بنا، جو مذہبی مظاہر کو ختم کرنے کی کوشش میں تھیں۔ یہاں تک کہ مساجد کو بند کر دیا گیا، اور بعض سرکاری اداروں میں روزہ رکھنے کو پسماندگی کی علامت سمجھا جانے لگا، جس کی وجہ سے ترکی کے کئی مسلمان چوری چھپے روزہ رکھنے پر مجبور ہو گئے، گویا وہ کوئی جرم کر رہے ہوں۔
ان تمام دباؤ کے باوجود، ماہ رمضان ترک معاشرے میں گہرے اثرات چھوڑ چکا تھا اور اس کی روایات نسل در نسل منتقل ہوتی رہیں، یہاں تک کہ آج رمضان ترکی کی عوامی زندگی اور دینی و قومی شناخت کا ایک اہم حصہ بن چکا ہے۔
روہ داروں پر دباؤ کا آغاز
1923 میں جمہوریہ ترکی کے قیام کے بعد، دین اور ریاست کے درمیان تفریق کا اصل عمل ایک سال بعد شروع ہوا، جب مارچ 1924 میں مصطفی کمال اتاترک نے خلافت عثمانیہ کا خاتمہ کر دیا۔
اس کے بعد، وزارتِ شریعت و اوقاف اور ترکی کی شرعی عدالتیں بند کر دی گئیں، اور نئی ترک حکومت میں مذہب کو سیاست سے مکمل طور پر الگ کرنے کی راہ ہموار کی گئی۔
نئی حکومت نے صرف یہیں تک محدود نہیں کیا بلکہ مسلمانوں کی سماجی حیثیت کو مزید کمزور کرنے کے لیے خلافت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد تعلیمی یکسانیت کا قانون (Law on the Unification of Education) متعارف کرایا، جس کے تحت دینی مدارس بند کر دیے گئے اور تعلیم پر ریاست کا مکمل کنٹرول قائم کر دیا گیا۔
مزید برآں، 1926 میں ہجری کیلنڈر کو میلادی کیلنڈر سے بدل دیا گیا، جس کے نتیجے میں اسلامی تہواروں، بشمول رمضان، کو سرکاری سطح پر نظر انداز کر دیا گیا اور ریاست نے ان سے ہر قسم کا تعلق ختم کر لیا۔
تاریخِ اسلام کے محقق بنیامین کوجا اوغلو کے مطابق، ترک جمہوریہ نے اپنے ابتدائی سالوں میں روزے پر باضابطہ پابندی عائد نہیں کی، لیکن بالواسطہ ایسی پابندیاں ضرور لگائیں کہ معاشرتی سطح پر روزہ رکھنا معیوب محسوس ہونے لگا۔
1928 میں ترکی کے آئین میں ترمیم کی گئی، جو محض ایک قانونی تبدیلی نہیں بلکہ ایک واضح اعلان تھا کہ ترک حکومت اسلام کو قانونی یا سماجی حوالہ تسلیم نہیں کرتی۔
آئین سے "ریاست کا مذہب، اسلام ہے" کا جملہ حذف کر دیا گیا، جس کے ساتھ ہی ترک جمہوریہ نے جدید سیکولر ازم کی بنیاد رکھ دی اور ریاست کو اسلامی و تاریخی شناخت سے ہٹا کر ایسے سیاسی ڈھانچے میں ڈھال دیا، جہاں مذہب کو حکومتی اداروں سے جدا کر دیا گیا۔
محقق کے مطابق، ترکی کا تجربہ یہ ثابت کرتا ہے کہ مذہب پر دباؤ ڈالنے سے لوگ دین سے پیچھے نہیں ہٹتے، بلکہ مزید اس سے جڑ جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ترک حکومت کے ابتدائی دہائیوں میں رمضان کو عوامی زندگی سے نکالنے کی کوششوں کے باوجود، یہ مہینہ ترک عوام کی اجتماعی روح میں زندہ رہا اور بالآخر سیاسی پابندیوں سے آزاد ہو کر ترکی کے قومی تشخص کا لازمی جزو بن گیا۔/
4269695