ایکنا نیوز- الجزیرہ ویب سائٹ کے حوالے سے رپورٹ میں بتایا جاتا ہے کہ عربی، ترکی اور فارسی زبانوں کی مخطوطات (قدیم نسخے) یورپ میں، بالخصوص جرمن زبان بولنے والے ممالک میں، قرونِ وسطیٰ کے دوران سفارتی، تجارتی اور عسکری تعلقات کے ذریعے پہنچیں، بالکل ویسے ہی جیسے اسلامی فنون اور ادب وہاں متعارف ہوئے۔
ان میں سے بعض مخطوطات نایاب اور قیمتی تحفوں کے طور پر بادشاہوں اور اشرافیہ کے خزانوں میں شامل ہوئیں، جبکہ کچھ جنگی غنیمت کے طور پر حاصل کی گئیں۔ یہ اسلامی مخطوطات اور فن پارے جو یورپ پہنچے، زیادہ تر کلیسا کے خزانوں یا اشرافیہ کے ذاتی ذخیرے کا حصہ تھے۔ تاہم، 17ویں سے 19ویں صدی تک سلطنت عثمانیہ سے قریبی تعلقات کے نتیجے میں یورپ میں اسلامی اور مشرقی نسخوں کی باقاعدہ مجموعے تشکیل پائے۔
تاہم، کلیسا کی دولت پر سیاسی ترقی اور سیکولر نظام کے اثرات کی وجہ سے یہ مجموعے اکثر منتشر اور غیر مرتب تھے۔ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ عربی کے 40 ہزار سے زائد نسخے جرمنی کی تین بڑی عوامی لائبریریوں تک کیسے پہنچے، اور یہ بات یورپ، مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے درمیان گہرے اور بدلتے ہوئے تعلقات کی جھلک بھی پیش کرتی ہے۔
جرمنی میں واقع "مرکز برائے مطالعہ ثقافتِ مخطوطات" نے یونیورسٹی آف ہیمبرگ کے تعاون سے عربی نسخوں کی تاریخ اور ان کے جرمن لائبریریوں تک پہنچنے کے راستوں پر ایک تحقیقی مطالعہ شائع کیا ہے۔
برلن، باویریا اور گوتا کی تحقیقی لائبریریاں مشرقی نسخوں کے سب سے بڑے ذخائر کی حامل ہیں۔ پروفیسر تیلمن زیدن اشتیکر، جو یونیورسٹی آف فریڈرش شیلر ینا میں اسلامیات کے ماہر ہیں، کے مطابق یہ نسخے مشرقی جرمنی کی سابقہ لائبریریوں، خانقاہوں اور قلعوں سے منتقل کیے گئے تھے، جہاں انہیں دوسری جنگ عظیم کے آخری ایّام میں محفوظ کیا گیا تھا۔
جنگ کے دوران، جرمن حکام نے ثقافتی ورثے کو مختلف مقامات، حتیٰ کہ سوویت یونین میں تقسیم کرنے کی پالیسی اپنائی۔ تاہم، صرف چند مخطوطات ہی برلن اور گوتا کی لائبریریوں تک پہنچ پائے۔
.
گوتا کی تحقیقی لائبریری میں موجود مشرقی نسخے اس بات کی مثال ہیں کہ سوویت یونین کو منتقل کی گئی مخطوطات لازماً ضائع نہیں ہوئیں؛ مثلاً 3,000 سے زائد نسخوں پر مشتمل ایک مجموعہ 1946ء میں سوویت یونین بھیجا گیا اور 1956ء میں (تین سال بعد اسٹالن کی وفات کے بعد) بغیر نقصان کے واپس کیا گیا۔
استیکر کے مطابق یونیورسٹی آف ہیمبرگ کی شائع کردہ تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ جنگ کے اثرات کے نتیجے میں متعدد کتابیں، مخطوطات اور نمائشیں چوری ہوئیں۔
جرمنی میں مشرقی مخطوطات کا سب سے بڑا ذخیرہ برلن کی اس لائبریری میں ہے جو پروس کے بادشاہ فریڈرک دوم کے حکم سے قائم ہوئی۔ بادشاہ نے عربی، فارسی، ترکی، حبشی، قبطی، ہندی اور چینی زبانوں کے مخطوطات کی خریداری کا حکم دیا، تاکہ اپنے تجارتی اور نوآبادیاتی مقاصد کو تقویت دی جا سکے۔
دوسری بڑی لائبریری جرمن ریاست باویریا کے شہر میونخ میں واقع ہے، جہاں اس وقت 4,200 سے زائد اسلامی مخطوطات موجود ہیں۔ بیسویں صدی کے دوسرے نصف میں یہاں اسلامی اور قرآنی نسخوں کی تعداد میں دو مونیخی کتب داروں کی دلچسپی کے باعث نمایاں اضافہ ہوا۔
جنگی غنیمتیں:
عثمانی سلطنت اور یورپی طاقتوں کے درمیان جھڑپوں کے دوران جرمن لائبریریوں نے نایاب نسخے غیر معمولی ذرائع سے حاصل کیے۔ گوتا کی پرانی لائبریری میں موجود 74 مشرقی نسخوں میں سے بعض پر ایسے نوٹ موجود ہیں جو ظاہر کرتے ہیں کہ یہ نسخے بطور "غنیمت" حاصل کیے گئے تھے۔ ان میں قرآن کے اقتباسات اور سنت نبوی پر مشتمل مخطوطات بھی شامل ہیں۔
یوں، عربی نسخوں کی جرمن لائبریریوں میں منتقلی کے ابتدائی مراحل میں جنگ، لوٹ مار یا غنائم کے بجائے نوآبادیاتی اور اقتصادی مفادات نے اہم کردار ادا کیا۔/
4275857