ایکنا نیوز- اناطولی خبر رساں ایجنسی کے مطابق یورپ میں اسلاموفوبیا سے متعلق رپورٹس ظاہر کرتی ہیں کہ ان جرائم کا نشانہ بننے والوں کی اکثریت مسلمان خواتین پر مشتمل ہے۔
تحقیقات سے پتا چلا ہے کہ انتہائی دائیں بازو کے سیاستدانوں کی پروپیگنڈا مہمات زیادہ تر محجّب خواتین کو ہدف بناتی ہیں۔
یورپی ادارہ برائے انسداد اسلاموفوبیا کی 2024 کی سالانہ رپورٹ کے مطابق، اس ادارے کے پاس درج 1037 اسلاموفوبک جرائم میں سے 24 فیصد مردوں اور 76 فیصد خواتین کے خلاف تھے۔ ان میں سے 402 حملے محجّب خواتین کے خلاف ہوئے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ان جرائم میں:
59 فیصد نسل پرستانہ امتیاز
17 فیصد نفرت انگیز بیانات
11 فیصد بہتان تراشی
7 فیصد توہین آمیز سلوک
6 فیصد جسمانی حملے شامل ہیں۔
اسی طرح، بیلجیم میں انسداد اسلاموفوبیا گروپ کی رپورٹ کے مطابق:
70 فیصد اسلاموفوبیا کے واقعات خواتین کے خلاف ہوئے،
جن میں 50 فیصد محجّب خواتین کو نشانہ بنایا گیا،
اور زیادہ تر واقعات دفاتر اور تعلیمی اداروں میں پیش آئے۔
رپورٹ یہ بھی بتاتی ہے کہ تعلیمی اداروں میں جسمانی اور لفظی حملوں کی شرح 19 فیصد تک پہنچ گئی ہے، جبکہ 56 فیصد اسلاموفوبیا کے کیسز سرکاری اداروں اور عوامی تنظیموں کی جانب سے پیش آئے۔
مزید برآں، یورپی یونین کے ادارہ برائے بنیادی حقوق کی رپورٹ "یورپ میں مسلمان ہونا اور مسلمانوں کے تجربات" کے مطابق:
آسٹریا میں 71 فیصد،
جرمنی میں 68 فیصد
اور فن لینڈ میں 63 فیصد اسلاموفوبیا کے کیسز رپورٹ ہوئے، جو 2024 میں یورپ میں سب سے زیادہ ہیں۔
دوسری طرف، برطانیہ کی حکومت نے حالیہ اعلان میں کہا ہے کہ وہ مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز حملوں کی نگرانی اور متاثرین کی مدد کے لیے ایک نیا فنڈ قائم کرے گی۔
جامعہ الازہر مصر نے اس فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے اسے برطانیہ میں بڑھتی ہوئی نفرت اور تشدد کے خلاف ایک اہم عملی اقدام قرار دیا ہے۔
الازہر نے برطانوی حکومت کا شکریہ ادا کرتے ہوئے درج ذیل نکات پر زور دیا:
مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے والوں کے لیے سخت قوانین کا نفاذ
مدارس کے نصاب میں رواداری کے اقدار کو فروغ دینا
اور مصنوعی ذہانت کی مدد سے اشتعال انگیز مواد کی نگرانی کو مؤثر بنانا۔
4278112