امام حسین(ع) اور أصحاب بارے قرآنی آیت

IQNA

امام حسین(ع) اور أصحاب بارے قرآنی آیت

5:34 - July 19, 2025
خبر کا کوڈ: 3518826
ایکنا: امام حسینؑ اور آیت ۲۳ سورہ احزاب – وفاداری کے قرآنی معیارات پر شہداء کربلاء کی مثالیں موجود ہیں۔

ایکنا نیوز- امام حسینؑ نے اپنے باوفا اور جان نثار ساتھیوں کے حالات کو بیان کرتے ہوئے کئی مواقع پر سورہ احزاب کی آیت ۲۳ کی تلاوت فرمائی، جو مؤمنوں کی وفاداری اور عہد کی پاسداری کے بارے میں ہے:

آیت ۲۳ سورہ احزاب: "مِنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللَّهَ عَلَيْهِ، فَمِنْهُمْ مَنْ قَضَىٰ نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مَنْ يَنتَظِرُ وَمَا بَدَّلُوا تَبْدِيلًا" "مؤمنوں میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جنہوں نے اللہ سے کیا ہوا عہد سچ کر دکھایا، ان میں سے بعض اپنی نذر پوری کر چکے (یعنی شہید ہو چکے) اور کچھ انتظار میں ہیں، اور انہوں نے اپنے عہد میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔"

امام حسینؑ کی آیت کی تلاوت کے دو مواقع دینی و سماجی علوم کے محقق حجت الاسلام علیرضا قبادی کے مطابق، تاریخی منابع میں دو موقع ایسے ملتے ہیں جہاں امام حسینؑ نے یہ آیت واضح طور پر تلاوت فرمائی:

1.     منزل "عذیب ہجانات" پر: جب امامؑ کو اپنے قاصد قیس بن مسہر صیداوی کی شہادت کی خبر ملی، تو آپ نے آیت کا یہ حصہ تلاوت فرمایا: "فَمِنْهُمْ مَنْ قَضَىٰ نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مَنْ يَنْتَظِرُ..." (یعنی کچھ اپنی نذر پوری کر چکے اور کچھ ابھی انتظار میں ہیں۔)

2.     روز عاشورا: جب امامؑ اپنے وفادار صحابی مسلم بن عوسجہ کی شہادت کے وقت ان کے قریب تشریف فرما تھے، تب بھی آپ نے یہی آیت تلاوت فرمائی۔

آیت کی دلالت اور امامؑ کی حکمت یہ آیت ایسے مؤمنین کی نشاندہی کرتی ہے جنہوں نے رسول اللہﷺ کے ساتھ کیے گئے اپنے عہد کو مکمل سچائی سے نبھایا۔ انہوں نے دشمن کے مقابلے میں پیچھے ہٹنے کی بجائے جان کی بازی لگا دی۔ امام حسینؑ کی ان آیات کی تلاوت اس بات کا اعلان تھی کہ ان کے ساتھی وہی سچے مؤمن ہیں، جن کی قربانی قرآن نے بیان کی ہے۔

یہ تلاوت نہ صرف امامؑ کی طرف سے اپنے ساتھیوں کے ایمان اور وفاداری پر رضامندی کا اظہار تھی بلکہ یہ ان ساتھیوں کے لیے ایک دینی سند بھی ہے جو ابھی زندہ تھے اور اپنی قربانی کا وقت آنے کا انتظار کر رہے تھے۔

دو عظیم شہداء کی مثالیں

1.     قیس بن مسہر صیداوی (رضی اللہ عنہ): قیس امام حسینؑ کے اہم قاصد تھے۔ جب کوفہ کا ماحول بدل چکا تھا، وہ امام کا خط لے کر اہل کوفہ کے پاس جا رہے تھے۔ راستے میں گرفتار ہو گئے۔ انہوں نے امام کا خط چیر کر ضائع کر دیا تاکہ وہ دشمن کے ہاتھ نہ لگے۔ ابن زیاد نے انہیں منبر پر چڑھ کر امام حسینؑ اور حضرت علیؑ پر سب و شتم کرنے کو کہا۔ قیس منبر پر چڑھے اور علی الاعلان کہا: "میں حسینؑ کا نمائندہ ہوں، جو سب سے بہتر انسان ہیں... ان کی مدد کرو اور ان کی دعوت پر لبیک کہو!" اس کے بعد عبیداللہ ابن زیاد اور اس کے آبا پر لعنت بھیجی۔ چنانچہ ابن زیاد نے حکم دیا کہ اسے قصر کی چھت سے نیچے پھینک دیا جائے، پھر اس کے جسم کو ٹکڑے ٹکڑے کیا گیا۔

2.     مسلم بن عوسجہ (رضی اللہ عنہ): مسلم بن عقیل کی شہادت کے بعد، وہ حبیب بن مظاہر کے ساتھ مخفی طور پر کربلا پہنچے۔ شب عاشور، جب امام حسینؑ نے بیعت واپس لی، سب کو جانے کی اجازت دی، تو مسلم بن عوسجہ سب سے پہلے کھڑے ہوئے اور کہا: "کیا ہم آپ کو تنہا چھوڑ دیں؟ کل قیامت کے دن ہم کیا جواب دیں گے؟ خدا کی قسم، ہم آپ سے جدا نہیں ہوں گے۔" ان کی وصیت شہادت کے وقت یہی تھی کہ امام حسینؑ کی جان کی حفاظت کی جائے۔

امام حسینؑ کی آیت ۲۳ سورہ احزاب کی تلاوت ان شہداء کی عظمت، وفاداری، اور قربانی کے لیے قرآنی گواہی ہے۔ یہ آیت کربلا کے میدان میں عملی صورت اختیار کر چکی تھی۔

دعا: "مِنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللَّهَ عَلَيْهِ..." "بار الٰہا! ہمیں بھی ان سچے مؤمنوں میں شمار فرما، جو تیرے راستے میں عہد کو نبھانے والے ہیں۔/

 

4294898

نظرات بینندگان
captcha