ایکنا نیوز- الجزیرہ نیوز چینل کے مطابق، شمالی ڈارفور کے مرکز الفاشر کے محلہ "الدرجہ الاولی" میں، نمازِ فجر کے وقت تیز رفتار فورسز (Rapid Support Forces) کے ڈرون حملے میں درجنوں نمازی شہید ہوگئے۔ اسے سوڈان میں جنگ شروع ہونے کے بعد سے اب تک کا سب سے خونی حملہ قرار دیا جا رہا ہے۔
وزیرِاعظم نے واضح کیا کہ عام شہریوں کی جان اور مذہبی مقامات کے تحفظ کے لیے فوری اقدامات ضروری ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مسجد الفاشر پر حملہ دراصل سوڈانی شہریوں کی مذہبی روح پر حملہ ہے۔ انہوں نے سیکیورٹی و عدالتی اداروں کو ہدایت دی کہ واقعے کی فوری تحقیقات کریں اور ملوث عناصر کو انصاف کے کٹہرے میں لائیں۔
وزیرِاعظم نے اس عزم کا اظہار کیا کہ حکومت ایسے جرائم کے تکرار کو روکنے کے لیے تمام قانونی اقدامات کرے گی۔
مقامی ذرائع کے مطابق، حملے کے بعد محلے کے رہائشیوں کو مجبوراً درجنوں نمازیوں کی لاشیں اسی مسجد کے صحن میں دفن کرنی پڑیں، کیونکہ شہر پر ڈرون کا فضائی محاصرہ تھا اور عام قبرستان تک رسائی ممکن نہ رہی۔ وزارتِ صحت شمالی ڈارفور کے مطابق، شہید ہونے والوں کی تعداد 70 سے تجاوز کر گئی ہے اور ملبے تلے موجود لاشوں کی وجہ سے مزید اضافے کا خدشہ ہے۔
گواہوں نے بتایا کہ بمباری دوسری رکعت کے دوران کی گئی، جب نمازی سجدے اور رکوع کی حالت میں تھے اور نہ پناہ لے سکتے تھے نہ فرار، جس سے جانی نقصان بڑھ گیا۔
سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیوز میں مسجد کے اندر کے ہولناک مناظر دکھائے گئے ہیں: پھٹی ہوئی دیواریں، ملبے تلے بکھری لاشیں اور خون آلود جائے نمازیں۔
شمالی ڈارفور کی وزارتِ صحت کی ڈائریکٹر خدیجہ موسیٰ نے الجزیرہ کو بتایا: بہت سی لاشیں اب تک شناخت نہیں ہو سکیں اور کچھ اب بھی ملبے تلے دبی ہیں۔ یہ منظر ان قتل عاموں سے مختلف نہیں جو ماضی میں دارفور میں دیکھے گئے تھے، مگر اب یہ زیادہ مہلک اور جدید ہتھیاروں کے ساتھ ہوا ہے۔
مبصرین کے مطابق، مسجد "الدرجہ الاولی" پر حملہ دوہری بےحرمتی ہے: ایک، نمازیوں کو اللہ کے گھر میں نشانہ بنا کر؛ دوسرا، مسجد کو اجتماعی قبر میں تبدیل کر کے۔
واضح رہے کہ سوڈان کی فوج اور ریپڈ سپورٹ فورسز کے درمیان اقتدار کی جنگ دو سال سے جاری ہے اور الفاشر، جو شمالی دارفور کا مرکز ہے، شروع سے ہی اس گروہ کے محاصرے میں ہے۔/
4305885