
ایکنا نیوز کے مطابق، گجرات میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کی آگ اُس وقت دوبارہ بھڑک اٹھی جب ایک اشتعال انگیز پوسٹ نے سوشل میڈیا پر وائرل ہو کر مسلمانوں کی دکانوں اور گھروں پر منظم حملوں کو جنم دیا۔ یہ واقعات باہیال گاؤں میں پیش آئے — ایک ایسا منظر جس نے دو دہائی قبل گجرات میں ہونے والے خونی فسادات کی یاد تازہ کر دی۔
عینی شاہدین کے مطابق، مشتعل ہجوم نے لکڑیوں اور پتھروں سے مسلح ہو کر مسلمانوں کی دکانوں پر حملہ کیا اور ان کے گھروں کو آگ لگا دی، جس سے پورا گاؤں ایک خوف و ہراس کی رات میں ڈوب گیا۔ یہ حملے اس وقت شروع ہوئے جب وشوا ہندو پریشاد (VHP) کے ایک رہنما، جو اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیز بیانات کے لیے بدنام ہے، نے ایک تحریک آمیز پوسٹ شائع کی۔
مقامی حکام کا کہنا ہے کہ درجنوں افراد کو تشدد اور آتش زنی کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے، تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ گرفتاریاں محض سطحی اقدامات ہیں جو نفرت انگیزی کے بنیادی اسباب کا سدباب نہیں کرتیں۔ ان کے مطابق، بھارت میں فرقہ وارانہ بحران کو میڈیا اور سوشل پلیٹ فارمز پر پھیلائی جانے والی نفرت مزید بڑھا رہی ہے۔
تجزیہ کاروں نے خبردار کیا ہے کہ یہ واقعات ہندوستان میں منظم فرقہ واریت کے بڑھتے ہوئے خطرے کی علامت ہیں، اور سوشل میڈیا ایک موثر ہتھیار بن چکا ہے جو اقلیتوں کے خلاف تشدد کو ہوا دیتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی، قانونی کمزوری اور مسلمانوں کے تحفظ کے لیے ریاستی سطح پر واضح موقف کی عدم موجودگی بھی تشویشناک ہے۔
اس تمام صورتحال کے باوجود، گجرات کے مسلمان اور ملک کے دیگر حصوں میں بسنے والے مسلمان تعصب، امتیاز اور بار بار کے حملوں کے باوجود صبر، ایمان اور وقار کے ساتھ اپنی شناخت اور بقا کا دفاع کر رہے ہیں۔/
4312766