
ایکنا نیوز- یقیناً ہر معاشرے میں ایسے افراد پائے جاتے ہیں جو یا تو کام کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے یا ان کی آمدنی اتنی کم ہے کہ وہ اپنے تمام اخراجات پورے نہیں کر سکتے۔ ایسے لوگوں کی ضروریات کو حتی المقدور پورا کرنا لازم ہے۔ اسلام کے مطابق مال و دولت دراصل پوری قوم یا معاشرے کی ملکیت ہے، کیونکہ خدا نے زمین پر اپنی خلافت اور اموال میں وکالت انسانوں کے سپرد کی ہے۔
قرآن مجید انسان کی اس نیابتی اور استخلافی ملکیت کا ذکر کرتے ہوئے انفاق کا حکم دیتا ہے۔ مثلاً ایک مقام پر فرمایا گیا ہے: : «آمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَأَنْفِقُوا مِمَّا جَعَلَكُمْ مُسْتَخْلَفِينَ فِيهِ» “اس مال میں سے خرچ کرو جس میں تمہیں جانشین بنایا گیا ہے” (الحدید: 7) اور دوسری جگہ فرمایا گیا: “اور انہیں اللہ کے مال میں سے دو جو اُس نے تمہیں عطا کیا ہے” (النور: 33)۔
قرآن کریم پرہیزگاروں کی صفات بیان کرتے ہوئے کہتا ہے: «وَفِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ لِلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ »
ترجمہ: اور ان کے مالوں میں سوال کرنے والے اور محروم کا حق مقرر تھا” (الذاریات: 19)۔ یہ آیات واضح طور پر معاشرے میں باہمی تعاون اور ایک دوسرے کی مدد کی ضرورت پر زور دیتی ہیں۔
یوں مالدار لوگ دراصل خدا کے مال پر اس کے وکیل اور امانت دار ہیں۔ مال ان کے پاس بطورِ امانت رکھا گیا ہے اور انہیں چاہیے کہ وکالت اور امانت داری کے تقاضوں کے مطابق عمل کریں۔
امام جعفر صادقؑ فرماتے ہیں: کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ جسے خدا نے مال دیا ہے، وہ اس کی عزت کی وجہ سے ہے، اور جسے نہیں دیا وہ اس کی توہین کے باعث ہے؟ ہرگز نہیں! مال تو خدا کا مال ہے، وہ اسے لوگوں کے پاس بطورِ امانت رکھتا ہے، اور انہیں اجازت دیتا ہے کہ اعتدال کے ساتھ کھائیں، پئیں، لباس پہنیں، شادی کریں، سواری رکھیں، محتاج مؤمنوں کی خبرگیری کریں اور ان کی پریشانی و ضرورت کو دور کریں”
لہٰذا مال و دولت دراصل معاشرے کی ملکیت ہے۔ ہر شخص کو اس وقت تک اس سے فائدہ اٹھانے کا حق حاصل ہے جب تک وہ اپنی امانت داری کے فرائض ادا کرے اور محروم طبقے کے حقوق کو نظرانداز نہ کرے۔ بصورتِ دیگر وہ اس مال کے استعمال کا حق دار نہیں۔/
3495055