رمضان کے جذبے کو برقرار رکھنا؛ اندورونی اور بیرونی وعظ کی ضرورت

IQNA

رمضان کے جذبے کو برقرار رکھنا؛ اندورونی اور بیرونی وعظ کی ضرورت

8:30 - April 25, 2023
خبر کا کوڈ: 3514174
رمضان سے حاصل ہونے والے معنوی جذبے کو پورے سال میں برقرار رکھنا بہت اہم ہے تاہم اس کے لیے اندورونی اور بیرونی نصحیت کی ضرورت ہے۔

ایکنا نیوز- ایک بہت اہم موضوع یہ ہے کہ انسان رمضان المبارک کے بعد اس سے حاصل روحانیت اور معنویت کو محفوظ رکھے۔ اس حوالے سے بزرگان دین نے تو تاکید کی ہے کہ اس کو اگلے رمضان تک مزید پرورش دی جائے تاکہ اگلے رمضان میں اوپر کئ درجے تک روحانی ترقی کا زینہ طے کرسکے۔

اس حؤالے سے دیکھا جائے تو انسان اور دوسری مخلوقات میں جو فرق ہے وہ یہ ہے کہ فرشتوں میں صرف معنوی اور روحانی پہلو ہے جنکو ملکوتی مخلوق کہا جاتا ہے اس کے برعکس حیوانوں میں صرف حیوانیت پائی جاتی ہے جنکو حیوان کہا جاتا ہے جنمیں روحانی جذبہ نہیں، تاہم انسان وہ مخلوق ہے جنمیں روحانیت اور حیوانیت دونوں کا امتزاج ہے۔

 

دوسرے الفاظ میں میں انسان کی تعریف یہ ہے کہ انسان میں جسمانی پہلو ہے جن کی خاص ضروریات اور مسائل ہیں اور سلامتی و بیماری ان میں موجود ہیں اور ہمیں چاہیے کہ ان ضروریات اور مسایل پر توجہ دیں، اسی طرح انسان میں روحانی جذبہ موجود ہے جس کی اپنی ضرورت ہے اور بزرگان دین نے جو اس پہلو کی سلامتی پر دعاوں میں تاکید کی ہے وہ اس روحانی پہلو کی اہمیت اجاگر کرتی ہے۔

صحیفه سجادیه میں دعا میں ہم یہی پڑھتے ہیں کہ اے رب ! ہمارے جسم و جان کو سلامت رکھ اور روح و قلب کو سلامتی عطا کر۔

قرآن کریم میں کہا گیا ہے کہ آخرت کا اہم ترین سرمایہ قلب سلیم ہے. «يَوْمَ لَا يَنْفَعُ مَالٌ وَلَا بَنُونَ / إِلَّا مَنْ أَتَى اللَّهَ بِقَلْبٍ سَلِيمٍ» بعض چیزوں کی ضرورت جسیے سانس لینا، کھانا، پینا ... اسی دنیا کے جسم کی ضرورت ہے تاہم اس پہلو پر حد سے زیادہ توجہ کبھی دوسرے عالم سے غفلت کا باعث بنتا ہے اور اس حؤالے سے انسان کو یاد دہانی اور تذکر کی ضرورت ہے۔

 

لہذا جس انسان میں ارادہ خواہشات پر تسلط حاص کرلے وہ کمال کا انسان ہے کیونکہ بچپن میں عام طور پر خواہشات ارادے پر غالب ہوتی ہیں تاہم پرورش یافتہ انسان کا ارادہ غالب ہوجاتا ہے۔

اس حؤالے سے رمضان بہترین فرصت فراہم کرتا ہے کہ انسان کا ارادہ خواہشات پر غالب آجائے، کیونکہ انسان عبادت کرنا چاہتا ہے اور پھر کھانے پینے کی خواہش کے باوجود وہ اس خواہش کو رد کرکے عبادت کرتا ہے۔

 

امیرالمؤمنین(ع)  نهج‌البلاغه میں فرماتے ہیں بہت سے روزہ دار صرف بھوک اور پیاس اور کم خوابی کی مشقت اٹھاتے ہیں اور روزہ سے انہیں کچھ فائدہ نہیں ہوتا. خؤش نصیب وہ ہے جن کو اس مہینے میں  قلب سلیم کے ساتھ شب بیداری اور عبادت کی توفیق ملتی ہے۔/

 

* ایرانی دانشور محمد اسدی‌گرمارودی کی ایکنا نیوز سے گفتگو

نظرات بینندگان
captcha