ایکنا: معاد کے وجود کی ضرورت پر متعدد عقلی دلائل پیش کیے گئے ہیں جن کا ذکر مسلم حکما اور فلاسفہ نے قرآن کی روشنی میں کیا ہے۔ آگے چل کر ان میں سے بعض دلائل کی طرف اشارہ کیا جا رہا ہے:
الف) دلیل حکمت: اگر اس دنیا کی زندگی کو دوسری دنیا کے بغیر تصور کیا جائے تو یہ زندگی بے معنی اور بے مقصد ہوگی۔ کیا ضرورت ہے کہ انسان ستر سال یا اس سے کم و بیش مشکلات میں زندگی بسر کرے جب کہ اس کا کوئی نتیجہ نہ ہو۔ قرآن کہتا ہے: "أَفَحَسِبْتُمْ أَنَّمَا خَلَقْنَاكُمْ عَبَثًا وَأَنَّكُمْ إِلَيْنَا لَا تُرْجَعُونَ" (المؤمنون- 115)؛ "کیا تم نے یہ گمان کیا کہ تمہیں بے مقصد پیدا کیا گیا ہے اور تم ہماری طرف لوٹ کر نہیں آؤ گے؟" اس کا مطلب ہے کہ اگر اللہ کی طرف واپسی نہ ہوتی تو اس دنیا کی زندگی بے مقصد ہوتی۔ دنیا کی زندگی کو بامعنی اور حکمتِ الٰہی کے مطابق تبھی بنایا جا سکتا ہے جب اس کو اگلی دنیا کے لیے کھیتی اور اس عالم کی طرف جانے کا راستہ سمجھا جائے۔
ب) دلیل عدل: اللہ نے انسان کو ارادہ و اختیار کی آزادی دی ہے تاکہ وہ آزمائش سے گزر کر کمال کی راہ پر چلے، لیکن اگر انسان اس آزادی کا غلط استعمال کرے تو کیا ہوگا؟ اگر ظالم اور گمراہ لوگ اس الٰہی نعمت کا ناجائز فائدہ اٹھا کر اپنی راہ پر چلتے رہے تو اللہ کا عدل کیا تقاضا کرتا ہے؟ درست ہے کہ کچھ بُرے اعمال والے لوگ اس دنیا میں سزا پاتے ہیں، لیکن ضروری نہیں کہ ہر مجرم کو اس دنیا میں اس کے اعمال کا پورا بدلہ ملے، یا ہر نیک شخص کو اس دنیا میں اس کے اعمال کا پورا اجر ملے۔ قرآن کہتا ہے: *"أَفَنَجْعَلُ الْمُسْلِمِينَ كَالْمُجْرِمِينَ مَا لَكُمْ كَيْفَ تَحْكُمُونَ"* (القلم- 35 و 36)؛ "کیا ہم ان لوگوں کو جو قانونِ خدا کے سامنے حق اور انصاف کے ساتھ جھکے ہوئے ہیں، مجرموں کے برابر کر دیں گے؟ تم کیسے فیصلہ کرتے ہو؟" لہٰذا اللہ کے عدل کے نفاذ کے لیے یہ ضروری ہے کہ ایک عام عدالت ہو جہاں ہر اچھے اور برے عمل کا حساب ہو، ورنہ عدل کا اصول مکمل نہیں ہوگا۔ اسی لیے عدل کو قبول کرنے کا مطلب معاد اور قیامت کو قبول کرنا ہے۔ قرآن کہتا ہے: "وَنَضَعُ الْمَوَازِينَ الْقِسْطَ لِيَوْمِ الْقِيَامَةِ" (الأنبياء- 47)؛ "ہم قیامت کے دن انصاف کے ترازو قائم کریں گے۔"
ج) دلیل مقصد: مادی سوچ کے برعکس، الٰہی نقطۂ نظر میں، انسان کی تخلیق کا ایک مقصد ہے جسے فلسفے میں "کمال" اور قرآن و حدیث میں "قربِ الٰہی" یا "عبادت و بندگی" کہا گیا ہے۔ *"وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ"* (الذاریات- 56)؛ "میں نے جن اور انسان کو صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔" اگر موت سب کچھ کا اختتام ہو تو کیا یہ عظیم مقصد پورا ہو سکتا ہے؟ یقیناً اس سوال کا جواب نفی میں ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ اس دنیا کے بعد ایک اور دنیا ہو اور وہاں انسان اپنی ترقی کا سفر جاری رکھے اور اس دنیا کی کاشت کا نتیجہ وہاں حاصل کرے۔
خلاصہ یہ کہ معاد کو قبول کیے بغیر تخلیق کا مقصد پورا نہیں ہو سکتا، اور اگر اس زندگی کا تعلق موت کے بعد کی زندگی سے منقطع کر دیا جائے تو ہر چیز معمہ بن جائے گی اور ہمارے پاس اس کے جوابات نہ ہوں گے۔