ایکنا نیوز، عربی ۲۱ نیوز کے مطابق، دارالافتاء مصر نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ اسلام میں جہاد ایک شرعی اور ضابطہ بند تصور ہے، جس کے لیے مخصوص شرائط موجود ہیں، اور کوئی بھی غیر مجاز گروہ یا ادارہ دینی اداروں اور رسمی حکومتوں سے ہٹ کر اس حوالے سے فتویٰ یا دعوت جاری نہیں کر سکتا۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ اس قسم کی اشتعال انگیز کارروائیاں بدامنی اور عدم استحکام کا باعث بنتی ہیں، اور اسلامی اقوام کے لیے تباہ کن نتائج لاتی ہیں۔
دارالافتاء مصر نے زور دیا کہ فلسطینی قوم کی مدد اور ان کے حقوق کا دفاع ایک دینی اور انسانی فریضہ ہے، بشرطیکہ یہ کام حقیقت پسندی کے دائرے میں اور فلسطینیوں کے مفادات کے مطابق انجام دیا جائے، نہ کہ بغیر منصوبہ بندی کی گئی مہم جوئیوں کے ذریعے، جو ان کے مصائب میں اضافہ اور مزید بحرانوں کا سبب بنیں۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ شرعی لحاظ سے جہاد کا اعلان اور جنگ کا فیصلہ صرف دینی حکومت اور اس کی سیاسی قیادت کے ذریعے ہی ممکن ہے۔
اس ادارے نے مزید کہا کہ ایسے اعلانات جو افراد کو اپنے ملک کے رسمی قوانین کی خلاف ورزی پر اکساتے ہیں، اسلامی قوانین کی خلاف ورزی کے مترادف ہیں اور زمین پر فساد و انتشار کے پھیلاؤ کے حوالے سے انتباہ دیتے ہیں۔
دارالافتاء مصر کے بیان میں کہا گیا ہے کہ امتِ مسلمہ کی سیاسی، عسکری اور معاشی حقیقت کو نظر انداز کرنا اور اس کے نتائج پر غور کیے بغیر جہاد کی دعوت دینا، شریعتِ اسلامیہ کے اعلیٰ مقاصد سے متصادم ہے، جو مفادات کے تحفظ اور نقصان سے بچاؤ کی تعلیم دیتی ہے۔
قابلِ ذکر ہے کہ کچھ عرصہ قبل عالمی اتحاد برائے علمائے مسلمین نے غزہ کی حمایت میں جہاد کے وجوب کا فتویٰ جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ صہیونی حکومت، اس کے حامیوں اور غزہ میں نسل کشی میں شریک فوجیوں کے خلاف جہاد فرضِ عین ہے۔
اسی دوران، جامعہ الازہر کے اسلامی مرکز نے فلسطینی عوام سے یکجہتی کے اظہار کے طور پر، جنہیں ان دنوں غزہ کی پٹی میں صہیونی حکومت کے وحشیانہ حملوں کا سامنا ہے، اپنے سوشل میڈیا لوگو میں فلسطین کے پرچم کا اضافہ کیا۔