ایکنا کی رپورٹ کے مطابق، خادمانِ قرآن کریم کی تیسویں سالانہ تقریب گزشتہ سال کے آخر میں اور ماہِ رمضان المبارک کے وسط میں منعقد ہوئی۔ اس تقریب میں جو ایران کے صدر، مسعود پزشکیان، کی موجودگی میں منعقد ہوئی، 13 قرآنی خادمین اور ایک مدیحهسرائی و قرآن خوانی کے گروہ کو خراجِ تحسین پیش کیا گیا۔
ان نمایاں شخصیات میں ایک اہم نام خوشنویسی کے شعبے میں خدمت کرنے والے ایرانی فنکار، منوچہر نوحسرشت کا بھی تھا، جنہیں اس فن میں خدمات پر خادمِ قرآن کے اعزاز سے نوازا گیا۔
ایران کے فنون کی جغرافیہ میں خوشنویسی محض ایک مہارت یا تحریری طرز نہیں بلکہ حسن و جمال کو آشکار کرنے والی ایک روحانی زبان ہے۔ بعض اوقات، سیاہی اور کاغذ کی خلوت میں ایسے ہاتھ اُبھر آتے ہیں جو مٹی کے نہیں لگتے؛ وہ ہاتھ جو لفظوں کو صرف مشق نہیں بلکہ تصویر بناتے ہیں۔ منوچہر نوحسرشت انہی نایاب چہروں میں سے ایک ہیں، جنہوں نے عشروں تک دل و جان کے مرکب سے قرآن کی کتابت کی اور ایرانی فن کے شیدائیوں کے دلوں پر گہرا اثر چھوڑا۔
وہ 1327 ہجری شمسی (مطابق 1948 عیسوی) میں ہمدان میں پیدا ہوئے۔ ان کے لیے اسکول کے دن صرف نصابی تعلیم نہیں تھے، بلکہ انہوں نے درسی کتابوں کے بیچ ایک اور راستہ تلاش کیا ، وہ راستہ جو مرحوم استاد حسن میرخانی کی انگلیوں سے شروع ہوا اور ایران کے خوشنویسی کے عظیم اساتذہ تک پہنچا۔
انہوں نے نہ صرف خوشنویسی کو سیکھا بلکہ آنے والی نسلوں کو بھی اس فن کی تعلیم دی اور خوشنویسان کی انجمن کے استاد کی حیثیت سے اپنا نام معاصر ایرانی ثقافت میں سنہری قلم سے درج کیا۔
بلاشبہ استاد نوحسرشت کی سب سے نمایاں فنکارانہ خدمت قرآن کریم کی کتابت ہے - ایک عظیم کارنامہ جس کے لیے روح کی پاکیزگی، ذہنی یکسوئی اور بے پایاں عشق درکار ہوتا ہے۔ انہوں نے اب تک کئی بار قرآن مجید کو خود کتابت کیا ہے، اور یہ صرف ظاہری ترتیب سے نہیں، بلکہ باطنی نظم، خالص نیت اور برسوں کی فنکارانہ ریاضت کے باعث پیدا ہونے والی توجہ کے ساتھ انجام دیا ہے۔
قرآنی نسخوں کے ساتھ ساتھ، ان کے قلم سے تحریر شدہ سعدی کے غزلیات کا انتخاب بھی ان کے ماندگار فن پاروں میں شمار ہوتا ہے۔
اس استادِ خوشنویس کی فنی خدمات کا نقطۂ عروج، تیسویں سالانہ خادمانِ قرآن کریم کی تقریب میں انہیں دیے جانے والا اعزاز ہے۔/
4284156