ایکنانیوز- لبنانی تجزیہ کار ميخائيل عوض لکھتا ہے: ٹرمپ نہ مذہبی شخصیت ہے، نہ نظریاتی سوچ رکھتا ہے اور نہ ہی اس کی کوئی اسٹریٹیجک گہرائی ہے۔ وہ محض ایک تاجر ہے، جس کے لیے دین یا عقیدہ کوئی اہمیت نہیں رکھتا، بلکہ اس کی ساری توجہ اور دلچسپی صرف
منافع
پر مرکوز ہے — ایسا منافع جو
زور، تجاوز اور دھمکی
کے ذریعے حاصل ہو۔ یہ رویہ، جو دراصل لوٹ مار اور چوری کی شکل ہے، نہ صرف تمام آسمانی ادیان بلکہ
سیکولر اقدار
میں بھی مسترد شدہ ہے۔ ادیانِ الٰہی، انسانی حقوق کے چارٹرز اور اقوام کی اقدار ایسی کسی سودے بازی کو جواز یا ضمانت نہیں دیتے۔
ٹرمپ کا پیش کردہ "معاہدۂ ابراہیم" (جسے پیمان ابراہیم بھی کہا جاتا ہے) دراصل ایک معمول سازی کا منصوبہ تھا، جس کے تحت صیہونی ریاست اور بعض عرب ممالک — جیسے امارات، بحرین، سوڈان اور مراکش — کے مابین سفارتی تعلقات قائم کیے گئے۔ اس عمل میں ڈونلڈ ٹرمپ کی امریکی حکومت نے بھرپور معاونت کی۔
لبنانی مصنف و تجزیہ نگار مائیکل عوض نے ایک یادداشت میں اس معاہدے کا تجزیہ کرتے ہوئے اسے ادیان کے تقدس اور فلسطینی قوم کے قومی حقوق کے خلاف ایک حملہ قرار دیا ہے۔
ٹرمپ اپنے پہلے دورِ صدارت میں "ڈیل آف دی سنچری" (صدی کی ڈیل) لے کر آیا، جو بری طرح ناکام ہوئی۔ اب وہ دوسرے دور کے لیے ایک اور منصوبہ "غزہ: مشرق وسطیٰ کی ریویرَا" لے کر آیا ہے، جسے غزہ کے عوام نے یکسر مسترد کر دیا ہے — خاص طور پر ان حالات میں کہ جب وہ روزانہ کی بنیاد پر قربانیاں اور نسل کشی جھیل رہے ہیں۔
اب وہ "ابراہیمی دین" یا "ابراہیمیت" کے عنوان سے ایک اور معاہدے کی آڑ میں ایسا نظریہ پیش کر رہا ہے جس کا مقصد دین کو اپنے تجارتی رجحانات، ذاتی سوچ اور طاقت کے اصولوں سے ہم آہنگ کرنا ہے — نہ کہ روحانیت یا ایمان کے فروغ کے لیے۔ لیکن آسمانی ادیان اور ان کی اقدار انسانی تاریخ، شعور اور تہذیب میں راسخ ہیں اور انہیں کسی تجارتی سودے میں بدلا نہیں جا سکتا۔
1. ادیان کی تضعیف اور ان کی ساخت کی تبدیلی تاکہ انہیں ٹرمپ اور اس کے پیچھے موجود ظالم عالمی نظام کے مفادات کے مطابق ڈھالا جا سکے۔
2. فلسطین کے مسئلے کے قومی، انسانی، مذہبی اور عقیدتی پہلوؤں کو ختم کرنے کے لیے ایک نظریاتی و فکری ماحول پیدا کرنا۔
یہ "ابراہیمیت" دراصل تحریف، جعل سازی اور تاریخی و دینی غلط بیانی پر مبنی ایک منصوبہ ہے۔ اس کے ذریعے ایمان کے بنیادی اصول، عیسائیت کے دس احکام، حضرت ابراہیمؑ کا راستہ، شریعت کے حدود و قیود اور ممنوعات — سب کو مسخ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، تاکہ پیروکاروں کے ذہنوں میں فلسطین کے حق میں ایمانی جذبہ اور عملی مزاحمت کو ختم کر کے، رفتہ رفتہ فلسطینی کاز کو عملی میدان میں بھی مٹا دیا جائے۔
آخر میں کہا جا سکتا ہے کہ ٹرمپ کا پیش کردہ "پیمان ابراہیم" یا "ابراہیمی دین" اپنے کسی بھی مقصد میں کامیاب نہیں ہو پائے گا۔ یہ ادیان کی تحریف، ان کے تعلیمات کی تضعیف اور ان کے ماننے والوں کے جذبہ ایمان کو کمزور کرنے میں ناکام رہے گا۔