ایکنا نیوز- الیوم السابع نیوز کے مطابق مصر کی اعلیٰ کونسل برائے اسلامی امور کے رکن شیخ خالد الجندی نے وضاحت کی کہ قرآن کریم کی عظیم زبان دانی کا ایک منفرد پہلو یہ ہے کہ ایک ہی لفظ کئی معنوں کا حامل ہوتا ہے، اور یہی چیز قرآن کی زبانی معجزہ ہونے کی دلیل ہے۔
انہوں نے کہا کہ عربی زبان میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ ایک لفظ متعدد معانی کو اپنے اندر سمو سکتا ہے، اور یہ تنوع نہ تو معنی کو مجروح کرتا ہے اور نہ ہی جملے کے سیاق و سباق کو۔ ایسی وسعت اور غنا کسی اور زبان میں اس درجے پر موجود نہیں۔
شیخ الجندی کے مطابق یہ تنوعِ معانی قرآن کریم کی تفسیر میں نہایت باریک بینی کا تقاضا کرتا ہے، کیونکہ کسی لفظ کو ایسے معنی میں لینا جو اس کے سیاق و سباق سے ہم آہنگ نہ ہو، درست نہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ صرف ایک لسانی معجزہ نہیں بلکہ غور و فکر کی دعوت ہے، تاکہ ہم قرآن کے معنوں کی گہرائی اور اس کی بلاغت سے لطف اندوز ہو سکیں۔ انہوں نے سوال اٹھایا: "ہم اس انفرادیت میں موجود حسنِ بلاغت سے کیوں لطف نہیں اٹھاتے؟ ہم اپنی نئی نسل کو کیوں یہ موقع نہیں دیتے کہ وہ قرآن کے ذریعے زبان فہمی کا ذوق پیدا کریں؟" یہ تجربہ ذہنی، روحانی اور تعلیمی لذت کے ساتھ ساتھ عربی زبان کی خوبصورتی کو بھی آشکار کرتا ہے۔
الفاظِ قرآنی کی معنوی گہرائی شیخ خالد الجندی نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ قرآن کے الفاظ جیسے "اتخذ" (اختیار کرنا) اور "اخذ" (لینا) میں فرق ہے۔ "اخذ" جسمانی گرفت اور وابستگی کو ظاہر کرتا ہے، جبکہ "اتخذ" کسی عمل کو مستقل طور پر اپنانے یا عادت بنانے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ قرآن کریم ہر لفظ کو نہایت باریکی اور سیاق کے مطابق استعمال کرتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ تفسیری اور لسانیاتی کتابیں جیسے الکشاف، القرطبی، الطبری، روح المعانی قرآن کے الفاظ میں پوشیدہ بے شمار پہلوؤں کو ظاہر کرتی ہیں اور قرآن کے لامحدود معجزے کو آشکار کرتی ہیں۔ انہوں نے تاکید کی کہ جو لوگ قرآن سے احکام اخذ کرتے ہیں یا اس کی تفسیر کرتے ہیں، انہیں علم اور باریک بینی کے ساتھ یہ عمل کرنا چاہیے۔
شیخ خالد الجندی نے آخر میں کہا کہ قرآن کے ذریعے عربی زبان کی تعلیم صرف نحو و صرف تک محدود نہیں رہتی بلکہ اس کے ساتھ بلاغت، ذوقِ لسانی اور روحانی ارتقاء بھی شامل ہے۔ مزید یہ کہ ہر حرف پر دس نیکیاں ملتی ہیں، تو جب نیکیاں زیادہ ہیں تو معانی بھی زیادہ ہونے چاہئیں۔/
4304862