ایکنا نیوز- الجزیرہ کے حوالے سے لکھا ہے کہ انیسویں صدی میں ہالینڈ کے ایک خاندان میں ایک بچہ پیدا ہوا جس کی خاندانی تاریخ بھاگنے اور رسوائی سے بھری ہوئی تھی۔ اس بچے کا نام کریسٹین اسنوک ہورگرونیه تھا، اور جلد ہی یہ نام ہالینڈ کی مستشرقانہ تاریخ کا سب سے متنازع نام بن گیا۔
ابتدائی زندگی اور تعلیم
کریسٹین اسنوک ہورگرونیه 1857ء میں جنوبی ہالینڈ کے شہر اوسترهوت میں پیدا ہوا۔ اس نے 1874ء میں یونیورسٹی آف لائیڈن سے علمِ الہیات کی تعلیم شروع کی اور 1880ء میں “مکہ کے رسوم و جشن” کے موضوع پر پی ایچ ڈی حاصل کی۔ اگلے ہی سال اسے ڈچ نوآبادیاتی سروس انسٹیٹیوٹ میں پروفیسر مقرر کیا گیا، جہاں سے اس کی اسلامی اور عربی ثقافت میں دلچسپی شروع ہوئی۔
مکہ اور مدینہ کا خفیہ سفر
ہورگرونیه عربی زبان میں مہارت رکھتا تھا، اور اسی وجہ سے اسے ایک بے نظیر مغربی مشن کے لیے منتخب کیا گیا۔ بطور مستشرق، اس نے مسلمانوں کی زندگی کو قریب سے جانچنے کے لیے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کا سفر مبدل لباس میں کیا۔
نوجوانی سے ہی وہ نہ صرف علمِ الہیات بلکہ عربی زبان اور اسلامی تہذیب سے گہری وابستگی رکھتا تھا۔ بعد میں اس نے “عبدالغفار اللایدنی” (یعنی لائیڈن کا عبدالغفار) کا عربی نام اختیار کیا اور مکہ کے قلب میں جا پہنچا۔ وہ حجاج کے درمیان رہا، کعبہ کی خفیہ تصاویر بنائیں اور اپنی شناخت چھپائے رکھی۔ اس کی زندگی کا یہ باب جاسوسی کہانی سے کم نہ تھا۔
“عبدالغفار” مکہ کا خفیہ جاسوس
28 اگست 1884ء کو 27 سالہ اسنوک جِدہ پہنچا۔ اس کا دوہرا مشن تھا: ایک طرف علمی تحقیق، دوسری طرف ہالینڈ حکومت کے لیے جاسوسی۔ اس کی ذمہ داری تھی کہ وہ انڈونیشی حجاج کی نگرانی کرے اور دیکھے کہ آیا وہ ضدِ استعمار تحریکوں سے وابستہ تو نہیں۔
اس نے مذہبی سختیوں سے بچنے کے لیے عربی نام “عبدالغفار” اختیار کیا، حتیٰ کہ اپنے لیے ایک غلام بھی رکھا تاکہ امیر حاجیوں جیسا تاثر دے۔ اس نے اسلامی رسومات کو نہایت باریکی سے سیکھا اور عثمانی گورنر، مقامی قاضیوں اور علما کا اعتماد حاصل کر لیا۔ 21 جنوری 1885ء کو اسے مکہ میں داخلے کی اجازت ملی، جہاں اس نے سات ماہ قیام کیا۔ اس دوران اس نے نمازوں، رسومات میں حصہ لیا اور علما و عوام سے ملاقاتیں کیں۔
ہورگرونیه کے پاس ایک چار کلو وزنی کیمرا تھا جس سے اس نے کعبہ، مسجدالحرام اور مکہ کے مختلف مقامات کی تصاویر بنائیں۔ اس نے پہلی مرتبہ مسجدالحرام سے قرآنِ کریم کی صوتی ریکارڈنگ کی جو سورۃ الضحیٰ کی تلاوت پر مشتمل تھی۔ یہ نادر ریکارڈنگز اس نے یونیورسٹی آف لائیڈن کو بھیجیں، جو آج مکہ کی معاشرت، فنِ تعمیر اور مذہبی زندگی پر ایک بے مثال ماخذ ہیں۔
ایمان یا فریب؟
وہ بھیس بدلنے میں اس قدر ماہر تھا کہ لوگ اسے “اپنا” سمجھتے تھے۔ مگر اس “عبدالغفار” کے چہرے کے پیچھے ایک مستشرق جاسوس چھپا تھا جو سب کچھ نوٹ کر رہا تھا۔ مکہ اس کے نوٹ بُک میں تو داخل ہوا، مگر دل میں کبھی نہیں۔
دارالاسلام اور دارالحرب کا تصور
ہورگرونیه نے اسلام اور استعمار کے تعلق پر گہرا مطالعہ کیا، خاص طور پر دارالاسلام اور دارالحرب کے نظریے پر۔ اس کے مطابق، وہ علاقے جیسے برطانوی ہند اور ڈچ انڈیاز بظاہر دارالاسلام کا حصہ ہیں، مگر غیر مسلموں کے زیرِ انتظام ہیں۔
اس کی رائے ویلیئم ہنٹر سے مختلف تھی، جو ہندوستانی مسلمانوں کی بغاوت کو غیرشرعی سمجھتا تھا۔ لیکن ہورگرونیه کا ماننا تھا کہ اسلامی فتوے اور قوانین کو سیاسی حالات سے الگ نہیں کیا جا سکتا — مسلمان اپنی سیاسی طاقت اور حالات کے مطابق ردِعمل دے سکتے ہیں۔
اس نے لکھا: دارالاسلام کی سرحدوں سے باہر کی تمام سرزمینیں دارالحرب ہیں، اور جیسے ہی حالات سازگار ہوں، وہ دارالاسلام بن سکتی ہیں۔ مشرکین کو اسلام قبول کرنا چاہیے، جبکہ دیگر اہلِ ادیان کو اسلامی حکومت کی اطاعت کرنی چاہیے۔
نوآبادیاتی سیاست میں کردار
مکہ سے واپسی کے بعد ہورگرونیه کو ہالینڈ کے مشرقی ہند (انڈونیشیا) میں حکومتی مشیر مقرر کیا گیا، جہاں اس نے آچے کی جنگ (1873–1914) میں کلیدی کردار ادا کیا۔ اس نے اپنی اسلامی ثقافت کے علم کو استعمال کرتے ہوئے مقامی نخبگان کو رام کرنے اور مسلح مزاحمت کو کم کرنے کی حکمتِ عملی اپنائی۔ وہ تشدد کے بجائے نفسیاتی اور سماجی کنٹرول پر یقین رکھتا تھا۔
بعد میں وہ واپس ہالینڈ گیا اور یونیورسٹی آف لائیڈن میں عربی، آچے زبان اور اسلامیات پڑھانے لگا۔ اس کی تصنیفات نے اسے اسلامی و عربی مطالعات کے عالمی ماہرین میں صفِ اوّل میں لا کھڑا کیا۔
ایک متضاد انجام
کریسٹین ایک کلیسائی مگر بدنام خاندان میں پیدا ہوا ، اس کا باپ ایک پادری تھا جو ایک پادری کی بیٹی کے ساتھ بھاگ گیا اور اپنی حاملہ بیوی کو چھوڑ گیا۔ کریسٹین گناہ اور شرمندگی کے سائے میں پلا، مگر علم کی جستجو نے اسے آگے بڑھایا۔ پہلے الہیات، پھر عربی، اور پھر اسلام میں اس قدر ڈوبا کہ گویا ایک نئی شناخت تلاش کر رہا تھا۔
اس کی تدفین بھی اسی تضاد کی عکاس تھی ، اسے اسلامی رسمِ جنازہ کے مطابق ایک سادہ قبر میں دفن کیا گیا، بغیر بیوی اور بیٹی کی موجودگی کے۔/
4305383