
ایکنا انٹرنشنل ڈیسک کے مطابق امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس کا بیان میں کہنا تھا کہ 2012 سے 2018 تک، عراق میں امریکی افواج اور امریکی سفارتی تنصیبات پر کوئی خاص حملہ نہیں ہوا۔ یہ 2018 میں تبدیل ہوا اور 2019 اور 2020 کے درمیان، ایٹمی معاہدے سے نکل جانا اور IRGC کو پابندیوں کی فہرست میں شامل کرنا اور سلیمانی کے قتل کے بعد، ایرانی حمایت یافتہ گروپوں کے حملوں کی تعداد 400 فیصد تک بڑھ گئی۔
انکا کہنا تھا کہ ہمیں ورثے میں ملی حکمت عملی کی بنیاد پر ایرانی حمایت یافتہ قوتوں کو دبانے کی کوششیں کامیاب نہیں ہوئیں۔
ہم حکمت عملی کو کام کرتا اور موثر دیکھنا چاہتے ہیں۔ ہم اب بھی سمجھتے ہیں کہ ایٹمی معاہدے کی طرف واپسی ہی صحیح حل ہے اور
ایٹمی معاہدے پر حتمی واپسی تک بہت کم مسائل باقی ہیں۔ فیصلے کی ذمےداری اب ایران پر ہے۔