الجزیرہ نیوز کے مطابق بین الاقوامی افریقن یونیورسٹی کے استاد پروفیسر عبدالرحمن احمد کدوک کا کہنا تھا: قرآن کی خطاطی کا خواب پرانا تھا اور مشکل لگ رہا تھا کہ یہ کام ہوسکے۔
یونیورسٹٰی استاد کا قرآن مجید کو خطاطی میں لکھنے کے حوالے سے کہنا تھا: میں نے کئی نسخوں کو دیکھا ہے کہ خطاطی کی گیی ہے تاہم وہ عثمان طہ خط میں نہیں تھے جو مساجد میں دیے جاتے ہیں۔
انکا کہنا تھا: عثمان طہ خط میں لکھنے کے بارے میں سوچتا رہا اور میرا خیال تھا کہ یہ ناممکن امر ہے تاہم خدا نے مدد کی کہ قطر میں سفر کیا اور وہاں ایک بک سیلر کی شاپ «جریر» پر جانے کا اتفاق ہوا جہاں ایک قرآنی نسخے کو دیکھا جس پر لکھا تھا: "پورا قرآن میں نے خطاطی کی ہے"
احمد کدوک کا کہنا تھا: کتاب نے مجھے متاثر کیا اور میں نے کھول کر دیکھا کہ خطاطی شدہ قرآنی نسخے ہیں میں نے دو جلد خریدا اور سوڈان واپس ہوا۔
استاد کا کہنا تھا: سورہ فاتحہ اور سورہ بقرہ کو لکھا محسوس ہوا کافی مشکل کام ہے، وہ 2017 کا دور تھا، پھر جب مجھے فرصت ملتی میں کام کرتا اور آہستہ آہستہ کام آگے بڑھ رہا تھا اگرچہ عربی لکھنے کا کام سخت ہے اور مشق کی ضرورت ہوتئ ہے۔
انکا کہنا تھا: 34 سال قبل میں نے آرٹ گیلری میں عربی کے خطوط، خط کوفی، رقعہ، نسخ اور دیوانی کچھ سیکھا تھا تاہم بعد میں چھوڑ دیا تھا لہذا دوبارہ لکھنے میں کافی مشکل ہوئی۔
احمد کدوک کا کہنا تھا: شروع میں لکھنے میں دقت ہوئی تاہم آہستہ آہستہ عادت ہوئی اور میں پنسل کی بجایے ڈائریکٹ قلم سے لکھنا شروع کیا اور پانچ جز مکمل ہوا۔
پروفیسر احمد کا کہنا تھا: ہمیشہ لکھتے ہوئے میں وضو کرتا، نماز پڑھتا اور پھر قرآن لکھنا شروع کرتا اور وقت گزرنے کا احساس ہی نہ ہوتا۔
انکا کہنا تھا: چار سال کے بعد ۲۰۲۱ کو مکمل ہوا اور سورہ الناس لکھتے ہوئے عجیب خوشی محسوس ہورہی تھی۔
انکا کہنا تھا: ممکن ہے کچھ لوگ تعجب کریں کہ قرآن مجید کو ہاتھ سے لکھنے کا فایدہ کیا ہے جب کہ چاپ شدہ نسخے موجود ہیں تاہم کہنا ہوگا کہ قرآن نویسی ہمارا ورثہ ہے جسکو زندہ رکھنے کی توفیق ملی اور اس کے زریعے خدا سے نزدیک ہونے کا احساس ہوتا ہے اور یہ ایک لذت بخش کام ہے اور جو لوگ اس کام کو کرسکتے ہیں انکو فورا اس کا آغاز کرنا چاہیے۔/