ایکنا نیوز- قرآن میں انسان کے اعمال اور کردار کے لیے کچھ معیار مقرر کیا گیا ہے اور ہر عمل صالح کے علاوہ دیگر اعمال کو قبول نہیں کیا جاتا۔
اسلام اس بات کا قایل ہے کہ ہر کام کے کچھ محرک ہو نہ کہ صرف مادی منافع کی خاطر کام کیا جایے، نیک نیتی کا ہونا لازم ہے اور جب تک نیت اچھی نہ ہو اس کو ہم «شایسته» نہیں کہہ سکتے کیونکہ اسلام صرف ظاہر کو نہیں دیکھتا۔
اسلام ہر کام میں محرک اور نیت کو لازم دیکھتا ہے کہ انجام دینے والے کا آخرت اور خدا پر ایمان کیسا ہے اور اچھا کام وہ ہے جسمیں جذبات و محرکات ایمان کے ہمراہ ہوں۔
اسی لیے اسلام نے ریا کاری کو حرام قرار دیا ہے اور جو کام ایمان و جذبے سے خالی ہو وہ بیکار شمار ہوتا ہے، وہ کام جرم اور شرک شمار ہوگا اور معاشرے میں اسکی کوئی ویلیو نہیں ہوگی حتی اگر وہ کام ایک مسجد کی تعمیر ہی کیوں نہ ہو: «مَا كَانَ لِلْمُشْرِكِينَ أَنْ يَعْمُرُوا مَسَاجِدَ اللَّهِ شَاهِدِينَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ بِالْكُفْرِ أُولئِكَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ وَفِي النَّارِ هُمْ خَالِدُونَ:
ترجمہ: مشرکین کو زیب نہیں کہ وہ مساجد کو آباد کریں در حالیکہ وہ کفر پر گواہی دیتے ہیں وہ جنکے اعمال ضائع ہوجاتے ہیں اور خود آگ میں دایمی طور پر جلتے ہیں۔» (توبه/ 17).
اسلام چاہتا ہے کہ انسان ہر کام نیک نیتی کے ساتھ ہر قسم کی دھوکہ بازی اور فریب سے دور رہے۔/