ایکنا نیوز- قرآن کریم کا اہم ترین معجزہ قرآن کی بلاغت ہے جو تمام انسانوں اور جنوں کو چیلنج کرتا ہے کہ اس کی طرح ایک آیت ہی لائے اور آج تک کسی نے اس کام کو انجام نہیں دیا ہے گرچہ بلاغت کے حوالے سے کافی کتابیں لکھی جاچکی ہیں۔
بلاغت یعنی کلام مخاطب کے مزاج اور نفسیات کے عین مطابق ہونا ، اگر انسان کلام میں بلاغت کی رعایت کرتا ہے تو مخاطب کی روح اور روان کو متاثر کرتا ہے کیونکہ اسکا کلام ایک دوا کی طور پر اثر کرے گا۔
قرآن جو خدا کا کلام ہے اور خدا خود انسان کی تمام ضرورتوں کو ہر کسی سے بہتر سمجھتا ہے لہذا صاف ظاہر ہے اس کا ہر کلام مخاطب کے حال دل کے مطابق ہوگا جو اس کے مزاج اور فطرت کے عین مطابق ہوگا۔
فصاحت و بلاغت کے کچھ کلام کی مثال پیش خدمت ہیں:
«مَثَلُ الَّذِينَ كَفَرُوا بِرَبِّهِمْ أَعْمَالُهُمْ كَرَمَادٍ اشْتَدَّتْ بِهِ الرِّيحُ فِي يَوْمٍ عَاصِفٍ لَا يَقْدِرُونَ مِمَّا كَسَبُوا عَلَى شَيْءٍ ذَلِكَ هُوَ الضَّلَالُ الْبَعِيدُ ؛ جو رب کے کافر ہے انکے اعمال راکھ اور خاکستر کی مانند ہیں جو ایک ہوا کے جھونکے ساتھ اڑ جائیں گے وہ کچھ بہ پائیں گے اور دور دراز کے گمراہ ہیں!» (ابراهیم: 18)
اس میں کفار کے اعمال کو اسطرح سے بیان کیا گیا ہے جو فکر و سوچ کا بیدار کرتا ہے تاکہ مخاطب پر اثر انداز ہو۔
«يَوْمَ نَطْوِي السَّمَاءَ كَطَيِّ السِّجِلِّ لِلْكُتُبِ كَمَا بَدَأْنَا أَوَّلَ خَلْقٍ نُعِيدُهُ وَعْدًا عَلَيْنَا إِنَّا كُنَّا فَاعِلِينَ؛
اس دن جب آسمان فھرست کی طرح لپیٹا جائے گا جیسے آغاز میں ہوا تھا اسکو لوٹایا جائے گا یہ ہمارا وعدہ ہے جو یقینا پورا ہوگا۔.»(انبیاء: 104)
اس آیت میں دنیا کے اختتام پر آسمان کو ایک اسکرولنگ فھرست سے تشبیہ دیا گیا ہے جسمیں سب نقوش محفوظ ہوں گے اور جب قیامت کا حکم جاری ہوگا یہ طومار یا فھرست لپیٹا جائے گا۔
اس آیت میں خوبصورتی سے اعمال کے آشکار ہونے کو واضح طور پر پیش کیا گیا ہے۔/