تاریخ کے حریت پسندوں کی سعادت مند زندگی؛ سقراط سے حسین تک

IQNA

تاریخ کے حریت پسندوں کی سعادت مند زندگی؛ سقراط سے حسین تک

10:48 - July 31, 2022
خبر کا کوڈ: 3512406
با سعادت زندگی کا انتخاب وہ نکتہ ہے جس میں سقراط سے لیکر حسین تک تمام حریت پسندوں کا سرچشمہ ایک ہی ہے۔

ایکنا نیوز- یونانی فلاسفر سقراط جو سال ۴۷۰ قبل مسیح دنیا میں آئے اور سال ۳۹۹ کو ۷۰ کی عمر میں اسے بلا کر سزا کے طور پر جام زہرپلایا گیا اس الزام میں کہ وہ جوانوں کے عقیدے کو خراب کرکے یونانی خداوں سے دور کرتا ہے۔

سقراط کی موت کے ایک هزار سال بعد ایک اور مرد حر سامنے آیا جس میں سقراط کی شباہتیں موجود تھیں. حسین بن علی(ع) جو سال ۶۲۶ عیسوی کو مدینه میں پیدا ہوئے اور وقت کے ظالم خدا نما حکمرانوں اور بنی امیہ کے خلاف ڈٹ گیے. وہ نواستہ خاتم الانبیاء حضرت محمد(ص) تھے، «بَذَلَ مُهجَتَهُ فیکَ لِیَستَنقِذَ عِبادَکَ مِنَ الجَهالَةِ وحَیرَةِ الضَّلالَةِ؛ اپنے خون کو بہا کر جہالت کی زنجیروں سے اسیروں کو رہا کیا».

یونانی حکیم اور امام حسین(ع) کی باتوں سے انکے درمیان شباھت کو دیکھی جاسکتی ہے۔

 

ذلت کی زندگی پر عزت کی موت کو ترجیح

مشہور ہے کہ حسین(ع)، نے ذلت کی زندگی پر عزت کی موت کو ترجیح دیا: « مرگ کو سعادت اور ظالموں کے ساتھ زندگی کو ذلت و رنج سمجھتا ہوں». سقراط نے بھی پیشی کے موقع پر کہا: «میں خطرے کو دور کرنے کے لیے خود کا تمھارے سامنے خوار و ذلیل نہیں کرسکتا اور اب موت کی ساز پر پیشمان نہیں».

حسین ابن علی موت سے بے خوفی کو کچھ یوں بیان کرتے ہیں: «میرا مقام ایسا نہیں کہ موت سے خوف کھایے اور حق طلبی کی راہ میں موت کسقدر آسان ہے».

ایسی ہی مورال کو سقراط میں مشاہدہ کیا جاسکتا ہے جو ایتھنز کی عدالت میں کہتا ہے: «شاید کوئی کہے کہ سقراط کیا شرمندہ نہیں ہو کہ ایسی زندگی کرکے خود کو خطرے میں ڈال دیا؟ جواب دونگا کہ موت و حیات کی فکر تمھارے  نزدیک اہمیت رکھتا ہے لیکن ایک قابل قدر انسان کے لیے ویلیو یہ ے کہ وہ دیکھے کہ کیا اسکا کام درست ہے کہ نہیں، جوانمردی والا ہے کہ نہیں».

 

موت کے بعد کی زندگی کی ساخت

سقراط و حسین کے کلام میں ایک اور مشترک چیزموت کے بعد کی زندگی ہے، اس بارے میں حسین ابن علی فرماتے ہیں : «موت ایک پل کی مانند ہے جو تمھیں سختی و ناتوانی سے جنت کی ابدی نعمتوں میں لے جاتی ہے، تم میں سے کس کو پسند نہیں کہ زندان سے محل میں منتقل ہوجاو ». یعنی موت سختیوں سے راحتی کی طرف صرف ایک پل ہے بس۔

سقراط کا بھی یہی نظریہ ہے کہ موت ایک منزل سے نکل کو دوسروں سے مل جانا ہے: « موت دو حالت سے خارج نہیں کہ جو مرتا ہے مکمل فنا ہوتا ہے کہ کچھ نہیں ہوتا یا یہ کہ ایک منزل سے نکل کر دوسری منزل میں جانا ہے، اگر پہلی حالت ہو بھی تو راحت کی نیند ہے جس کو کچھ پریشان نہیں کرتا اور اگر ایک منزل سے دوسری منزل جانے کا نام ہے تو وہاں دوسروں سے ملنے کی جگہ ہے یہ بھی بڑی نعمت ہے۔».


سقراط و حسین ابن علی کی باتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ تاریخ کے حریت پسندوں کی شناخت کا سرچشمہ ایک ہی ہے گرچہ زمان و مکان کے حوالے سے ان میں ہزاروں سال کا فاصلہ ہو۔

نظرات بینندگان
captcha