ایکنا کی رپورٹ کے مطابق، مصری اخبار "تلگراف مصر" کے حوالے سے، شیخ الازہر نے مصر کے سیٹلائٹ چینل "الحیاة" کے پروگرام "امام طیب" میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ:
یہ کہا جاتا ہے کہ ایک ایسا قرآن موجود ہے جسے "مصحف فاطمہ (علیہا السلام)" کہا جاتا ہے؛ لیکن اگر یہ حقیقت پر مبنی ہوتا تو مستشرقین اور مشنری گروہ اس پر شور مچاتے، اس کا پروپیگنڈا کرتے اور ہمیں دکھاتے، لیکن ایسا نہیں ہوا۔
انہوں نے مزید کہا کہ کچھ مقامات، خاص طور پر یمن میں، قرآن کے علاوہ کسی اور کتاب کی تلاش کی کوششیں کی گئیں، لیکن کچھ نہیں ملا۔ جو کچھ ملا، وہی قرآن تھا جس پر تمام مسلمان متفق ہیں اور آج بھی اسے اسی طرح تلاوت کیا جاتا ہے جیسے رسول اللہ ﷺ نے تلاوت فرمایا تھا۔
شیخ الازہر نے زور دے کر کہا کہ "ایک ہی قرآن کا وجود امت مسلمہ کے اتحاد کا ایک بنیادی عنصر ہے، اور سب سے بڑا عنصر اللہ کے احکامات اور دینی تعلیمات ہیں۔"
انہوں نے یہ بھی کہا کہ مستقبل میں شیعہ اور سنی کے درمیان اس موضوع کو واضح کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں گے تاکہ ہر قسم کی توہین روکی جا سکے اور دشمنی و اختلافات کا خاتمہ ہو، کیونکہ یہی اختلافات ایک امت کو آپس میں دشمن بنا رہے ہیں۔
شیعی روایات میں "مصحف" کا مطلب وہ تحریری مجموعہ ہے جو دو جلدوں کے درمیان موجود ہوتا ہے، نہ کہ قرآن۔ حضرت فاطمہ زہراء (سلام اللہ علیہا)، جو تمام جہانوں کی خواتین کی سیدہ ہیں، حضرت مریم (سلام اللہ علیہا) کی طرح "محدثہ" تھیں، یعنی ان پر وحی نازل ہوتی تھی، اور جبرئیل (علیہ السلام) ان کے پاس آتے تھے۔
رسول اللہ ﷺ کی رحلت کے بعد کے ایام میں، حضرت جبرئیل (علیہ السلام) تعزیت کے لیے حضرت فاطمہ (سلام اللہ علیہا) کے پاس آتے اور انہیں ان کے اہل بیت (علیہم السلام) اور ان کی اولاد کے بارے میں پیش آنے والے واقعات سے آگاہ کرتے۔ حضرت علی (علیہ السلام) ان باتوں کو تحریر کرتے، اور یہی تحریری مجموعہ "مصحف فاطمہ (سلام اللہ علیہا)" کہلایا۔
اہل بیت (علیہم السلام) کی احادیث میں یہ واضح طور پر بیان ہوا ہے کہ اس مصحف میں حلال و حرام کے احکام درج نہیں ہیں، بلکہ یہ ایک خاص میراث ہے جو اہل بیت (علیہم السلام) میں محفوظ ہے۔/
4269619