
ایکنا نیوز- ایران ریڈیو-کشمیری رہنما سید علی گیلانی نے اسرائیل کی تازہ بمباری میں 150 فلسطینیوں کے جاں بحق اور 400 کے زخمی ہونے پر اپنے گہرے صدمے اور رنج وغم کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ مسلم ممالک کے حکمران اب بھی نہ جاگے تو ان سب کا انجام بھی فلسطینیوں جیسا ہوگا اور خدانخواستہ مستقبل قریب میں ان کے شہربھی غزہ جیسی صورتحال سے دوچار ہونگے۔ انہوں نے امریکہ کی جانب سے اسرائیل کے حفاظتی نظام کے لیے مزید 225 کروڑ ڈالر امداد منظور کیے جانے کو ریاستی دہشت گردی کی کھلم کھلا حمایت قرار دیتے ہوئے کہا کہ امریکہ اب برہنہ طور سامنے آگیا ہے اور اس کا اسرائیل کو اس موقع پر مدد فراہم کرنا مسلمانوں کے خلاف اس کی طرف سے باضابطہ اعلانِ جنگ کے برابر اقدام ہے۔ موصولہ بیان میں حریت(گ) چیئرمین سیدعلی گیلانی نے کہا کہ اسرائیل ریاستی حیثیت سے ایک دہشت گرد ملک ہے اور امریکہ اس کی حمایت کرکے خود ایک دہشت گرد ریاست ثابت ہوگئی ہے ۔ سیدعلی گیلانی نے غزہ کی صورتحال پر ہندوستانی حکومت کے رویے کو بھی انتہائی مجرمانہ اور افسوسناک قرار دیا اور کہا کہ یہود اور ہنود کی مسلمانوں کے خلاف مشترکہ مجرمانہ ذہنیت واضح طور پر عیاں ہوگئی ہے ۔ اخبارات کے لیے جاری بیان میں سیدعلی گیلانی نے مسلم ممالک کی تنظیم او آئی سی (OIC)اور عرب لیگ کو ایک بار پھر تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ ان دونوں اداروں کا وجود ایک مذاق بن کر رہ گیا ہے اور ان کی حیثیت صفر ہوگئی ہے۔ بیشتر ممالک میں امریکہ کے پٹھو اور کٹھ پتلی حکمران بر سرِ اقتدار ہیں اور ان کی ساری دلچسپی اپنے اقتدار کے تحفظ کی فکر تک محدود ہے۔ مسلمانوں کے جینے مرنے سے انہیں کوئی دلچسپی نہیں ہے اور وہ اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ امریکہ اور اسرائیل انہیں بخش دیں گے اور معاف کریں گے۔ سیدعلی گیلانی نے امید ظاہر کی کہ امت مسلمہ کی موجودہ صورتحال نئی تعمیر سے پہلے تخریب جیسی ثابت ہوجائے گی اور اس ٹوٹ پھوٹ کے نتیجے میں مسلمان انشاء اﷲ بیدار ہوجائیں گے اور وہ ایک نئی دنیا آباد کرانے میں ایک اہم رول ادا کریں گے۔ سیدعلی گیلانی نے ائمہ اور خطباء سے اپیل کی کہ وہ فلسطینی مظلوموں کے لیے نمازوں کے بعد مسلسل دُعائیں مانگنے کا اہتمام کریں اور اپنے خطابات کے ذریعے سے عوام کو صورتحال سے آگاہ رکھیں اور انہیں منظم اور متحد ہونے کی تلقین کریں۔ انہوں نے کہا کہ مسلکی اور گروہی تنازعات کو ہوا دینے والوں کے لیے غزّہ کی صوتحال کسی عبرت سے کم نہیں۔ ان میں ذرّہ برابر بھی فہم وشعور ہے تو انہیں سمجھنا چاہیے کہ اسرائیل فلسطین میں کسی مسلمان سے اس کا مسلک یا مدرسۂ فکر نہیں پوچھتے کہ وہ شیعہ ہے یا سُنی، سلفی ہے یا حنفی، بلکہ وہ اندھا دھند انہیں گولیوں سے اس لیے بھون رہے ہیں کہ وہ کلمہ لا الہٰ الااﷲ پڑھنے والے لوگ ہیں۔