آستان قدس رضوی كی خبر رساں ايجنسی كی رپورٹ كے مطابق خطيب حرم مطہر نے رسول خداحضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم كی حديث شريف’’مَن اَحبَّ اَن یَلقَی اللہَ ضاحكاً مُستبشراً فليتولَّ علی ابن موسیٰ الرضا‘‘كو موضوع قرار ديتے ہوئے كہا: خداوندمتعال كا اہل ايمان پر خصوصی احسان ہے كہ ان كی رہنمائی كيلیے معصوم رہنما و پيشوا بھيجے ہیں، ہمارے پيغمبرؑ،تمام انبياء و رسل كے سيد و سردار ہیں اور ان كی ذريت مخزنِ رُشد و ہدايت ہے۔پيغمبر خاتمؐ كی گفتار و رفتار خداوندمتعال كی عين رضايت ہے اور وہ جو كچھ بيان فرماتے ہیں يا انجام ديتے ہیں،ان كا ہر قول اور ہر فعل و عمل خداوندمتعال كی مرضی كے مطابق اور پسنديدہ ہے،اس حقيقت كا ثبوت قرآن كريم نے’’وما ينطق عن الھویٰ۔۔۔۔‘‘اور ’’ وما رميتَ اذ رَميت و لكن اللہ رَمیٰ‘‘كی آيات بينات كے ذريعے ديا ہے كہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو كچھ كہیں اور جو كچھ كریں وہی مرضیِ خُدا ہوئی ہے اور یہاں قابلِ توجہ نكتہ یہ ہے كہ حضرت ختمی مرتبتؐ كے برحق،منصوص من اللہ اور معصوم جانشين جو حضرتؐ كے وارث ہیں،وہ بھی وراثت كی شرافت اور ہدايت كی خلافت پر فائز ہونے كے لحاظ سے بالكل اْسی طرح ہر قول اور ہر فعل و عمل میں معصوم ہیں اور وہی كہتے ہیں جو خداچاہتا ہے اور وہی كرتے ہیں جو خداوند كی مرضی كے مطابق ہوتا ہے۔
انہوں نے مزيد وضاحت كی:اس مقدماتی و ابتدائی گفتگو كو سمجھ لينے كے بعد اب اُس حديث شريف پر غور فرمائیں جو سرنامۂ كلام قرار دينے كی سعادت نصيب ہوئی كہ پيغمبر خاتم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:’’جو شخص پسند كرتا ہو كہ وہ ہشّاش بشاش اور خوشی و خرّمی كے ساتھ خداوندمتعال سے ملاقات كرے تو اُس كيلیے ضروری ہے كہ علی ابن موسیٰ الرضا (علیہما السلام) كی ولايت كا دامن تھام لے‘‘۔
معلوم ہوا اس امام علیہ السلام كی ولايت و محبت كوئی عام اور معمولی چيز نہیں ہے بلكہ خداوند كی بہت خاص نعمت ہے اور جس مؤمن كے دل جيسے پاك و پاكيزہ صدف میں اس رؤف و مہربان امام علیہ السلام كی محبت و ولايت كا ناياب گوہر ہو،جس كا دل اس حجت خدا كی ولايت كی دولت سے مالامال ہو؛پيغمبر خدا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم كے فرمان ذيشان كے مطابق اُسے خداوندمتعال سے خوشی و مسرت كی كيفيت میں ملاقات نصيب ہوگی اور یہ امر ايسے خوش نصيب كی اُخروی نجات كی بھی روشن دليل ہے۔
انہوں نے مذكورہ حديث سے استفادہ ہونے والے ايك اور پہلو كو بيان كرتے ہوئے كہا:اس حديث نبویؐ پر غوروفكر كرنے سے ايك اور مطلب یہ حاصل ہوتا ہے كہ یہ دنيوی و اُخروی سعادت و نجات حضرت علی ابن موسیٰ الرضا علیہما السلام كی ولايت و محبت كا نتيجہ ہے اور اس میں زائر اور غير زائر دونوں شامل ہیں يعنی جو شخص بھی اس ولايت كے ميزان پر پورا اُترے وہ اس نتيجے میں شريك ہے خواہ زيارت كرسكا ہو يا مشہد مقدس امام ہشتم علیہ السلام كی زيارت سے محروم ہو۔
آقائے نقوی نے آخر میں ايك اہم نكتے كو ذكر كرتے ہوئے كہا:اس حقيقت سے غافل نہیں رہنا چاہیے كہ ہر چيز كی كچھ تأثير ہوتی ہے اور محبت كی تأثير و خاصيت اور لازمہ بھی پايا جائے گا اور ايسی صورت میں ہی ضاحكاً مستبشراً يعنی خوشی و خرمی كی كيفيت میں اپنے خالق و مالك كی ملاقات نصيب ہوكر رہے گی وگرنہ خدانخواستہ اگر محبت و ولايت فقط زبان اور دعوے كی حد تك ہو تو ظاہر ہے اس كا وہ نتيجہ بھی ميسر نہیں ہوگا اور اس كا مطلب یہی ہوگا كہ دعویٰ تو كيا جارہا ہے ليكن حقيقی محبت و ولايت سے ابھی بہت فاصلے ہیں،خداوندمتعال حقائق سمجھنے كے ساتھ ان كے تقاضے پورا كرنے اور فضائل حاصل كرنے كی توفيق مرحمت فرمائے۔