محمد مصطفی(ص) جنکی آمد کی خبر دیگر کتابوں نے دی

IQNA

بعثت خاتم الانبیاء کی مناسبت سے

محمد مصطفی(ص) جنکی آمد کی خبر دیگر کتابوں نے دی

12:06 - February 19, 2023
خبر کا کوڈ: 3513785
تمام انبیاء کی آمد کا ایک ہی مقصد تھا وہ تھا انسانوں کی ہدایت اور نجات، ستائیس رجب کو غار حرا سے اتر کر آپ نے پیغام توحید عام کرنا شروع کیا۔

ایکنا نیوز- کیا 27 رجب بعثت نبی  کی مناسبت ہے یا معراج کی مناسبت ہے ؟ مبعث نبوی اور معراج نبوی میں کیا فرق ہے؟

 بہت سارے لوگ اس بات میں غلطی کرجاتے ہیں کہ 27 رجب  کو معراج نبوی کی مناسبت  ہے یا مبعث نبوی کی مناسبت ہے؟

 

مبعث نبوی یعنی :یعنی جب رسول اللہ ﷺ پر جبرائیل وحی لے کر نازل ہوئے۔

چالیس سال کی عمر میں  رسول اللہ ﷺ پر جبرائیل قرآن لے کر نازل ہوئے اور اسی دن پیغام رسالت پہنچایا  اسی وجہ سے کہا جاتا ہے کہ چالیس سال کی عمر میں  رسول اللہ ﷺ مبعوث بہ رسالت ہوئے ۔

ظاہری بات ہے ہم مذہب اثنا عشریہ کے نزدیک رسول اور امام پیدائش سے ہی بلکہ اپنی خلقت سے ہی رسول اور امام ہوتا ہے لیکن چالیس سال کی عمررسول اللہ صلی اللہ علیہ وآل وسلم کو  کار رسالت کا سلسلہ شروع کرنے کا باقاعدہ حکم دیا جاتا ہے ۔

 

مبعث نبوی کی  مناسبت 27 رجب کے ساتھ خاص ہے اور یہی بات ہمیں اصول کافی،تہذیب الاحکام،مصباح المتہجد،وسائل الشیعۃ، مفاتیح الجنان، تقویم الشیعۃ اور دیگر کتب میں ملتی ہے ۔

 جبکہ معراج نبوی کی مناسبت ایک قول کے مطابق 17  ماہ رمضان المبارک کے ساتھ خاص ہےاور ایک قول کے مطابق 21 ماہ رمضان المبارک کے ساتھ خاص ہے۔(صاحب کتاب تقویم الشیعۃ نے یہی دو قول ذکر کئےہیں  اور انہی اقوال کے حوالہ جات مختلف شیعہ کتب سے ذکر فرمائے ہیں۔)

 

 معراج نبوی یا اسراء نبوی : دونوں کا ایک ہی معنیٰ ہے اسراء کا معنی سیر ہے یعنی کسی کو کہیں لے جانا۔ جیسا کہ قرآن میں بھی ہے سبحان الذی أسریٰ بعبدہ ۔۔۔ یعنی سیر اور سفر کے نتیجے میں معراج واقع ہوئی۔ لہذا اسراء نبوی اور معراج نبوی دونوں لفظ استعمال کئے جاتے ہیں۔

 

  پس 27 رجب کا دن عید کا دن ہے تو اس کی مناسبت سلسلہ وحی کی ابتداء ہے اور قرآن کے نزول کا پہلا دن ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبعوث بہ رسالت ہونے کا دن ہے اور یقینا ً سب مسلمانوں کےلئے یہ عظیم دن ہے اور یہ ایک واضح غلطی ہے کہ اس دن کو معراج کا دن اور ستائیس27 رجب کی رات کو معراج کی رات کہا جاتا ہے اور شب معراج مبارک کی مناسبت سے لوگ جشن مناتے ہیں لیکن یہ صحیح نہیں  ہے ہمارے پاس  شیعہ مصادر میں کوئی ایسی روایت نہیں ہے کہ جس پر ہم اعتماد کر کے یہ فیصلہ کرسکیں کہ یہی 27 رجب  معراج نبوی کے ساتھ مناسبت رکھتا ہے لیکن اہل سنت کے ہاں بعض روایات ایسی ہیں کہ جن میں 27 رجب کو معراج نبوی  کا دن قرار دیا گیا ہے لیکن خود اہل سنت میں بھی بہت سارے ان روایات کو نہیں مانتے۔

 

اس مناسبت سے کہا جاسکتا ہے کہ رسول اکرم اس وقت مبعوث بہ رسالت ہوئے جب ہر طرف جہالت کا دور دورہ تھا اور انسانیت بدترین پستی میں گرچکی تھی مگر آپ نے آکر اس اس معاشرے کو عزت کی اوج پر پہنچا دیا ، آج بھی علم اور صنعت کی ترقی کے باوجود پیغمبروںؑ کی اخلاقی تعلیمات پر عمل کرنے کی سخت ضرورت ہے کیونکہ علم و صنعت کی ترقی اگرچہ انسان کو نئے نئے وسائل فراہم کرتی ہے ۔ لیکن اس کے پاس اس بات کی کوئی ضمانت نہیں ہے کہ انسان ان وسائل کا غلط استعمال نہیں کرے گا۔

  جرائم ، فساد ، تباہی، قتل ، خود کشی ۔۔۔۔ کی روزانہ حیرت انگیز طورپر بڑھتی ہوئی تعداد اس حقیقت کی نشاندہی کررہی ہے کہ اخلاق جو پیغمبروںؑ کی تعلیمات کا ایک اہم ترین جز ہے۔ اگر معاشرے پر اس کی حکومت نہ ہو تو صرف علم و صنعت کی ترقی معاشرے کی سعادت و فلا ح کی ضامن نہیں ہے ۔ بلکہ سامراج علم و صنعت کو اپنے اختیار میں لے کر اپنے فائدے کے لئے لا کھوں انسانو ں کو بے گھر کر دے گا جس طرح سے کر رہا ہے۔ کمزور قوموں کے حقوق پامال کر دےگا اور ا ن کو خاک و خون میں ملا دے گا ۔

 جو چیز انسان کی سرکش روح اور بلا خیز تمناﺅں پر قابو حاصل کر سکتی وہ صرف اور صرف حقیقی اخلاق ہے جس کا سر چشمہ خدا کی ذات پر ایمان ہے۔

   انبیاءکی اخلا قی تعلیمات اور ان کی راہ و روش بہترین ذریعہ ہے جو انسان کی زند گی کو با مقصد بنا سکتاہے ، اخلاق ہر ایک کےلئے لا زمی اور ضروری ہے خواہ انفرادی زندگی ہو یا اجتماعی ۔ لیکن وہ لوگ جن کے کاندھے پر معاشرے کی رہبری کا بارگراں ہے ، ان کے لئے اخلاقیات سب سے زیادہ ضروری ہے۔ کیونکہ جس پر معاشرے کی تربیت کی ذمہ داری ہے اسے خود مجسم اخلاق ہو ناچاہئیے اورتمام انسانی صفات و اقدار کا پیکر ہونا چاہئیے تاکہ لوگوں کے لوح دل کو اخلاقی کثافتوں سے پاک کر سکے۔

  اور اگر اس کا دامن اخلاق اس گراں قدر سرمایہ سے خالی ہو گا تو وہ صحیح معنوں میں کامیاب نہ ہو سکے گا۔

   قرآن کریم نے پیغمبر اسلام کے بارے میں کہا ہے ۔

ترجمہ :۔” یہ اللہ کی رحمت تھی کہ آپ لوگوں کےلئے نرم دل تھے ، اگر آپ تند مزاج اور سنگ دل ہوتے تو لوگ آپ کے نزدیک نہ آتے“

  پیغمبر اسلام کے اعلیٰ اخلاق نے عرب معاشرے میں اور پھر ساری دنیا میں اسلام کا مقدس انقلاب بر پا کر دیا ، اور اس عظیم انقلاب کا اثر تھا کہ افتراق اتحاد میں، بے ہو دگی عفت و پاک دامنی میں ، بے کاری کام و کوشش میں ، خود پر ستی انسان دوستی میں ، غرور و تکبر تواضع و انکساری میں تبدیل ہو گئے ۔ اور ایسے ایسے تربیت یافتہ انسا ن برآمد ہوئے جو سر سے پیر تک اخلا ق کا نمونہ تھے۔ آنحضرت کا اخلاق اس قدر اعلیٰ و ارفع ہے کہ خداوند عالم نے اس کو : خلق عظیم : کے عنوان سے یاد کیاہے۔

آج کے دن کی مناسبت سے یہی کہنا ہوگا کہ آج کی ماڈرن جاہلیت میں ایک بار پھر رحمت اللعالمین اور خلق عظیم کے کردار پر ایک نظر ڈال کر اپنی اصلاح کرنی ہوگی ورنہ کسی کو شک نہیں کہ دنیا ایک بار پھر اخلاقی پستی کی وجہ سے تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے۔/

نظرات بینندگان
captcha