مزاحمتی میدان میں خواتین کا انتخاب عاقلانہ ہے

IQNA

منتخب قرآنی خواتین:

مزاحمتی میدان میں خواتین کا انتخاب عاقلانہ ہے

10:20 - December 28, 2024
خبر کا کوڈ: 3517717
ایکنا: اشرف بصیری جو سولویں بین الاقوامی سیمینار کی منتخب کردہ ہے ان کا کہنا تھا کہ آج خواتین سیاسی میدان بھی آگانہ کردار ادا کرتی ہیں۔

سولویں بین الاقوامی خواتین قرآنی محققین کانفرنس، جو اس سال  حضرت فاطمہ زہرا (س) کی ولادت کی بابرکت ایام کے ساتھ منائی جارہی ہے، حالیہ علاقائی واقعات کے پیش نظر مزاحمتی محاذ کے محور پر مرکوز ہے۔ اس کانفرنس میں منتخب خواتین فلسطین، لبنان، عراق، یمن، اور شام جیسے ممالک سے منتخب کی جائیں گی۔ اس دوران قرآنی میدان میں سرگرم خواتین کو تحقیق، فنون، قرأت، اور حفظ کے شعبوں میں ان کی خدمات کے اعتراف میں اعزازات دیے جائیں گے۔

اشرف بصیری: قرآنی میڈیا کی فعال شخصیت اشرف بصیری، جو اس کانفرنس میں قرآنی میڈیا کے فعال شعبے میں منتخب ہوئی ہیں، ایران کی ان خواتین میں شامل ہیں جو تعلیمی سرگرمیوں کے ساتھ سماجی میدان میں بھی متحرک ہیں۔ وہ تین بچوں کی والدہ ہونے کے باوجود اپنی اولاد کی تربیت پر توجہ دیتے ہوئے بین الاقوامی قرآنی خبررساں ایجنسی (ایکنا) میں بین الاقوامی شعبے کی ایڈیٹر کے طور پر خدمات انجام دے رہی ہیں۔ اشرف بصیری نے قرآنی تعلیمات اور اسلامی معارف کو عالمی سطح پر پھیلانے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے اور مزاحمتی محاذ میں خواتین کے کردار کے حوالے سے اہم تجربات حاصل کیے ہیں۔

اشرف بصیری کا تعارف اور میڈیا کے شعبے میں خدمات اشرف بصیری نے امام صادق (ع) یونیورسٹی سے عربی زبان و ادب میں بیچلرز اور الزہرا (س) یونیورسٹی سے ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔ طالب علمی کے دور سے ہی انہیں صحافت میں دلچسپی تھی، جس کی وجہ سے انہوں نے صحافتی تربیتی کلاسز میں شرکت کی۔ تربیتی مراحل مکمل کرنے کے بعد، انہوں نے العالم چینل اور دیگر میڈیا اداروں میں کام کا آغاز کیا۔ 1385 میں، دینی امور سے لگاؤ کی وجہ سے انہوں نے ایکنا میں شمولیت اختیار کی اور تب سے بین الاقوامی شعبے میں خدمات سرانجام دے رہی ہیں۔

خواتین اور مزاحمتی محاذ میں ان کے کردار کی اہمیت اشرف بصیری کے مطابق، عمومی طور پر یہ تصور کیا جاتا ہے کہ خواتین کا مزاحمتی میدان میں کردار محدود ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ خواتین نے مزاحمت کے اخلاقی اور ثقافتی پہلوؤں کو گہرا کرنے میں مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ ان کے مطابق، مزاحمت صرف ایک فوجی یا سیاسی انتخاب نہیں، بلکہ ایک اخلاقی اور ثقافتی فیصلہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ حقیقی مزاحمت شعوری اور دانستہ عمل ہے جو گہرے اخلاقی اور انسانی شعور سے جنم لیتی ہے۔

محور مزاحمت میں خواتین کی اجتماعی بصیرت بصیری نے کہا کہ مزاحمتی تحریکوں کی کامیابی کے لیے پائیداری اور اجتماعی شعور ضروری ہے۔ غزہ کی خواتین اور بچوں نے اپنی زندگیاں مزاحمت کے لیے وقف کر دی ہیں اور وہ اس کے تمام نقصانات برداشت کرنے کے لیے تیار ہیں۔ غزہ اور لبنان کی خواتین کا کردار میدان جنگ میں مردوں کے برابر ہے اور وہ اپنے وطن اور نظریے کے دفاع کے لیے مردوں کے شانہ بشانہ کھڑی ہیں۔

آج خواتین محور مقاومت میں نہ صرف اپنے عقائد میں راسخ ہیں بلکہ سیاسی شعور بھی رکھتی ہیں اور عارضی و دائمی مفادات میں فرق کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ وہ اپنے فیصلے دانشمندانہ طور پر کرتی ہیں، حالات کے مطابق فیصلہ سازی کرتی ہیں، اور اپنے فیصلوں کی ذمہ داری قبول کرتی ہیں، جبکہ جذباتی عمل کے بجائے عقلی و منطقی رویہ اپناتی ہیں۔

ایکنا: کیا مظلوم بچوں سے لے کر شہید کمانڈروں تک مؤثر مزاحمتی نمونوں کی موجودگی ثقافتِ مقاومت کو مضبوط کرتی ہے؟

یقیناً، وہ صبر و قربانی جو خدا کی یاد اور ذکر کے ساتھ خواتین اور بچوں کے ذریعے نمایاں ہوتی ہے، میڈیا کے ذریعے دیکھنے لائق ہے۔ یہ صبر مزاحمت کا ایک اہم عنصر ہے، لیکن یہ کافی نہیں۔ ہمیں آج اس مرحلے کے تقاضوں کو سمجھنا ہوگا اور سیاسی معاملات سے ہٹ کر، انسانی وقار کے تحفظ کی ذمہ داری کو پورا کرنا ہوگا۔ قرآن پاک فرماتا ہے: "وَلَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِی آدَمَ" (ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی)۔ ہمیں انسانی کرامت کے دفاع اور عدل کے اصول سے غفلت نہیں کرنی چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ ثقافتِ مقاومت کو فروغ دینا ضروری ہے۔ یہ خواتین ہی ہیں جو اس ثقافت کو اپنی نسلوں تک منتقل کرنے کی طاقت رکھتی ہیں۔

آج، قدس اور فلسطین کے حق میں آواز دنیا کے ہر کونے سے بلند ہو رہی ہے، اور مظلوموں کے دفاع اور ظلم کے خلاف پائیداری کی اپیل نے عوامی مظاہروں میں نمایاں مقام حاصل کیا ہے۔ یہ سب ان میڈیا پیغامات کا نتیجہ ہے جو حق اور حقیقت کے حامی ہیں۔

ایکنا: مزاحمت کے حوالے سے میڈیا کا کردار کیا ہے، اور ایک تجربہ کار صحافی کی حیثیت سے آپ اس کی بنیادی ذمہ داری کیا سمجھتی ہیں؟

میڈیا کی بنیادی ذمہ داری آگاہی اور صحیح اطلاعات کی فراہمی ہے۔ ہمارا فرض ہے کہ حق کی حمایت اور ثقافتِ مقاومت کو مختلف ثقافتوں اور اقوام تک پہنچانے کے لیے اجتماعی عمل کو متحرک کریں۔ اس میں خواتین کی کردار نگاری، ان کی مظلومیت اور بچوں سمیت بے گناہ عوام کی کہانیاں پیش کرنا اہم ہے تاکہ عالمی ضمیر کو صہیونی مظالم اور اس کے مغربی اتحادیوں کی جانب متوجہ کیا جا سکے۔

ایکنا: ثقافتِ مقاومت کے فروغ میں میڈیا کو کیا چیلنجز درپیش ہیں، اور ان کا حل کیا ہو سکتا ہے؟

میڈیا اپنی وضاحتی اور تعمیری ذمہ داریوں کی وجہ سے عوامی شعور اجاگر کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ لیکن اس میدان میں ایک بڑی کمی اکیڈمک تحقیق کی ہے۔ منظم اور ٹیم ورک کے ذریعے میڈیا کو ایک ایسی قوت بنایا جا سکتا ہے جو ایثار اور مقاومت کی حقیقی قدروں کو اجاگر کرے۔

اس کے علاوہ، ہمیں اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ مغربی میڈیا، جو عموماً مسلمان خواتین کو مظلوم اور غیر مؤثر پیش کرتا ہے، بیانیہ جنگ میں غالب نہ ہو۔ اس وقت دشمن میدان جنگ کے بجائے نرم جنگ میں کامیابی حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ خواتین کی فعال موجودگی اور مقاومت کی حمایت اس چیلنج سے نمٹنے کا مؤثر حل ہے۔

ایکنا: فلسطینی عوام کے لیے آپ کی کیا آرزو یا دعا ہے؟

ایک مسلمان کی حیثیت سے میں قرآن کریم کے وعدے کا حوالہ دیتی ہوں کہ حضرت موسیٰ (ع) کی صبر و استقامت نے ظالم قوم کے زوال کی راہ ہموار کی۔ اسی طرح، فلسطینی عوام کی جدوجہد اور شہیدوں کی قربانی، ظلم و کفر کے خاتمے کا ذریعہ بنے گی۔ ان شاء اللہ، ظالموں کے زوال اور مظلوموں کے غلبے کا وہ وقت جلد آئے گا، جب امام عصر (عج) کا ظہور ہوگا اور عدل و انصاف کا نظام روئے زمین پر قائم ہوگا۔/

 

4255677

نظرات بینندگان
captcha