کلمه «لا اله الا الله» رسول اللہ (ص)؛ وحدت کا راز

IQNA

حجت‌الاسلام مقدسیان؛

کلمه «لا اله الا الله» رسول اللہ (ص)؛ وحدت کا راز

7:20 - September 02, 2025
خبر کا کوڈ: 3519082
ایکنا: اہل بیتؑ کے سیرت شناس استاد نے کہا کہ نبی اکرمؐ کی جانب سے پیش کیا گیا توحید کا پیغام، جو کلمہ «لا الٰه الا الله» کی صورت میں ظاہر ہوا، معاشرتی یکجہتی اور مختلف ثقافتی و سماجی بحرانوں کی روک تھام کا بنیادی ذریعہ ہے۔

ایکنا نیوز- نبی اسلامؐ تاریخِ بشریت کی ایک غیرمعمولی شخصیت ہیں، جنہوں نے ایک منتشر اور قبائلی معاشرے میں وحدت، ہمدلی، انصاف اور پرامن بقائے باہمی جیسی اقدار کو پروان چڑھایا۔ آپؐ کی تعلیمات نہ صرف انسانی زندگی کے روحانی اور اخلاقی پہلوؤں کو روشن کرتی ہیں بلکہ سماجی اور ثقافتی بنیادوں کو بھی استوار کرتی ہیں۔ رسول اکرمؐ کی قیادت اس حقیقت کو نمایاں کرتی ہے کہ اختلافات کے بیچ اتحاد اور ہم آہنگی کیسے پیدا کی جاسکتی ہے اور یہ کہ عدل، حکمت اور شفقت پر مبنی طرزِ عمل کس طرح معاشرتی دراڑوں کو پاٹ سکتا ہے۔ اسی طرح آپؐ کی تعلیمات آج کی دنیا کے اخلاقی، سماجی اور ثقافتی بحرانوں سے نمٹنے کے لیے بھی روشن رہنمائی فراہم کرتی ہیں۔

نبی اکرمؐ نے الٰہی اور انسانی اصولوں پر زور دیتے ہوئے معاشرے کو اخلاقی اقدار سے روشناس کرایا اور انفرادی و اجتماعی ترقی کا راستہ واضح کیا۔ آپؐ کی تعلیمات اندھیروں میں چراغ کی مانند ہیں جو انسان کو نجات، عدل اور ترقی کی جانب رہنمائی کرتی ہیں اور یہ بتاتی ہیں کہ اخلاق اور حکمت کے ذریعے کس طرح ایک ہم آہنگ اور مربوط معاشرہ تشکیل دیا جاسکتا ہے۔

ایکنا نے رسول اکرمؐ کی سیرت اور آپؐ کی حیاتِ طیبہ کے سیاسی و سماجی اثرات اور وفات کے بعد کے حالات کے حوالے سے حجت الاسلام عبدالجواد مقدسیان، استاد و محقق سیرت اہل بیتؑ سے گفتگو کی، جس کی تفصیل ذیل میں پیش ہے۔

ایکنا: نبی اسلامؐ نے کس طرح ایک قبائلی معاشرے کو ایک متحد امت میں تبدیل کیا؟

الٰہی رسالت کے راستے پر چلنے سے انسان کو باطنی سکون اور قلبی اطمینان حاصل ہوتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ وہ ایک خدائی ذمہ داری انجام دے رہا ہے۔ یہ سکون نہ صرف ذاتی زندگی بلکہ معاشرتی روابط اور دوسروں کی رہنمائی پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔ جو شخص اس حقیقت کو سمجھ لے وہ فیصلوں میں بردبار اور عاقل بن جاتا ہے اور اس کا طرزِ عمل عدل و اخلاق پر مبنی ہوتا ہے۔ نبی اکرمؐ اس تاثیر کی کامل مثال تھے کیونکہ آپؐ کی شخصیت، طرزِ عمل اور حکمت عملی ہمیشہ معاشرے کے لیے نمونہ اور الہام کا ذریعہ تھیں۔ حتیٰ کہ دشمن اور مخالفین بھی آپؐ کی صداقت اور اخلاق سے متاثر ہو کر انسانی و الٰہی اقدار کو قبول کرنے پر مائل ہوتے۔

یہ کہ ایک منتشر قبائلی معاشرے میں آپؐ نے اتحاد اور یکجہتی پیدا کی، تاریخِ بشریت کے عظیم ترین معجزات میں سے ایک ہے۔ اس دور میں جزیرۂ عرب کا معاشرہ مکمل طور پر قبائلی اور منقسم تھا، ہر قبیلہ آزاد حیثیت رکھتا اور اکثر ایک دوسرے سے برسرِ پیکار رہتا۔ خونریز جنگیں، پرانے انتقام اور سخت قبائلی تعصبات نے وحدت کو تقریباً ناممکن بنا دیا تھا۔ لیکن نبی اکرمؐ نے خدائی رسالت اور مکمل توکل کے ساتھ اس منتشر معاشرے کو ایک امت میں بدل دیا۔ آپؐ محض سیاسی رہنما نہیں بلکہ عالمی مشن کے حامل نبی تھے۔ جیسے خدا تمام جہانوں کا خالق ہے ویسے ہی آپؐ کی رسالت بھی کسی خاص زمان و مکان تک محدود نہیں تھی بلکہ تمام انسانیت کے لیے تھی۔

آپؐ نے صبر، شجاعت، حسنِ اخلاق اور حکمت کے ذریعے بکھرے دلوں کو قریب کیا اور عدل، صداقت اور شفقت کے ساتھ ایک مربوط معاشرے کی بنیاد ڈالی۔ یہ وحدت بالآخر آیتِ اکمالِ دین «الیوم اکملت لکم دینکم و اتممت علیکم نعمتی و رضیت لکم الاسلام دینا» کے نزول کے ساتھ کمال تک پہنچی اور ظاہر ہوا کہ خدائی رسالت معاشرے میں بنیادی تبدیلی کی قوت رکھتی ہے۔

نبی اکرمؐ نے نہ صرف اخلاقی بلکہ عملی اقدامات، معاہدات اور سماجی قراردادوں کے ذریعے بھی سیاسی و سماجی اتحاد قائم کیا۔ اس کی واضح مثال مہاجرین و انصار کے درمیان مواخات کا معاہدہ ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ نے اخلاق اور عملی تدابیر دونوں راستوں سے اتحاد قائم کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ آپؐ نے مشاورت، اختلافات کے حل اور عدلِ اجتماعی کے ذریعے معاشرتی ڈھانچے کو مضبوط بنایا، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ اتحاد صرف اخلاق اور محبت سے نہیں بلکہ دانشمندانہ تدبیر سے بھی ممکن ہے۔

نبی اکرمؐ کی کامیابی آپؐ کے وجود میں جلوہ گر خدائی رحمت کا نتیجہ تھی۔ قرآن کہتا ہے: «فَبِما رَحمَةٍ مِنَ اللَّهِ لِنتَ لَهُم و لَو كُنتَ فَظًّا غَليظَ القَلبِ لانفَضّوا مِن حَولِكَ»۔ یعنی آپؐ کی رحمت و شفقت نے لوگوں کے دلوں کو نرم کیا اور دشمن بھی آہستہ آہستہ آپؐ کی طرف مائل ہوگئے۔ نبیؐ نے عدل، مساوات اور درگزر کو اپنے عمل سے ظاہر کیا۔ آپؐ نے صرف تعلیمات کے ذریعے نہیں بلکہ اپنے عملی کردار سے بھی اخلاقی و انسانی اقدار کو معاشرے میں راسخ کیا۔ مہاجرین و انصار کی مواخات اس کی عملی مثال ہے جس کے ذریعے مختلف عادات و ثقافتوں کے حامل قبائل ایک امت کی صورت میں جمع ہوگئے۔

کلمه «لا اله الا الله» پیامبر(ص)؛ عامل همبستگی اجتماعی

 

آپؐ نے اختلافات کے حل اور قبائلی تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے مشاورتی نظام اور قبیلائی سرداروں سے مشاورت جیسے ڈھانچے قائم کیے۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ معاشرتی اتحاد نہ صرف اخلاق و محبت بلکہ حکمت اور تدبیر کے ذریعے بھی ممکن ہے۔

ایکنا: نبی اکرمؐ مختلف گروہوں حتیٰ کہ غیرمسلموں کے ساتھ کس طرح پیش آتے تھے ، اس میں سماجی ہم آہنگی کے لیے کیا پیغام پوشیدہ ہے؟ نبی اکرمؐ ہمیشہ لوگوں کے ساتھ خدائی لطف و رحمت کی نظر سے پیش آتے تھے۔ آپؐ کی رسالت کا مقصد تمام انسانوں تک خدائی پیغام پہنچانا تھا، چاہے وہ مسلمان ہوں یا غیرمسلمان۔ قرآن مجید کی آیت «وما أرسلناك إلا رحمةً للعالمین» اس حقیقت پر زور دیتی ہے کہ نبی اکرمؐ سب انسانوں کے لیے رحمت اور ہدایت لے کر آئے تھے، نہ کہ صرف کسی خاص گروہ کے لیے۔ آپؐ کا رویہ دیگر ادیان اور اقوام کے ساتھ عدل، احترام اور انسانی حقوق کی پاسداری پر مبنی تھا۔ مدینہ میں آپؐ نے ’’میثاقِ مدینہ‘‘ قائم فرمایا جو تمام گروہوں اور اقوام کو شامل کرتا تھا اور اس کی بنیاد پر سب شہریوں نے شہر کے دفاع اور عدل کے اصولوں کی پاسداری کا عہد کیا۔ یہ معاہدہ پرامن بقائے باہمی اور سماجی نظم قائم کرنے کی بے مثال مثال ہے۔ نبی اکرمؐ نے کبھی زور یا جبر سے لوگوں کو اسلام کی طرف نہیں بلایا، بلکہ صداقت، اخلاق اور ذاتی کردار سے صحیح راستہ دکھایا۔ جیسا کہ امام علیؑ فرماتے ہیں، نبی اکرمؐ خدائی ذمہ داری ادا کرنے کے لیے مبعوث ہوئے تھے، نہ کہ ذاتی مفاد یا اقتدار کے لیے۔ یہی صداقت اور کامل وفاداری غیرمسلموں کو بھی آپؐ پر اعتماد کرنے پر آمادہ کرتی اور ایک ایسا معاشرہ تشکیل پاتا جو بقائے باہمی پر استوار تھا۔

ایکنا: رسول اکرمؐ کے وصال نے نوپیدا اسلامی معاشرے کی یکجہتی پر کیا اثر ڈالا؟ نبی اکرمؐ کا وصال اسلامی تاریخ کا نہایت اہم سماجی و تاریخی موڑ تھا۔ جب تک آپؐ حیات تھے، اسلامی معاشرہ وحدت، رہنمائی اور استحکام سے بہرہ مند رہا اور سیاسی و سماجی اختلافات آپؐ کی تدبیر سے حل ہوتے رہے۔ تاہم، آپؐ کی برکات جسمانی موجودگی تک محدود نہ تھیں؛ قرآن، سنتِ رسولؐ اور آپؐ کی اخلاقی و سماجی تعلیمات امت کے پاس بطور رہنمائی باقی رہیں۔ وصال کے بعد بھی آپؐ کا نورانی اثر لوگوں کے دلوں اور معاشرتی رویوں میں جاری رہا اور خدائی قوانین اور اقدار معاشرے میں مستحکم ہوئے۔ اس کے باوجود، آپؐ کی جسمانی غیرموجودگی نے کچھ افراد کو خودغرضی اور ذاتی مفادات کے ساتھ میدانِ قیادت میں آنے کا موقع دیا، جس سے امت کی وحدت دباؤ میں آگئی۔ یہ صورتِ حال ظاہر کرتی ہے کہ سماج کی تشکیل کے ابتدائی مراحل میں ایک جامع اور الہام بخش رہنما کی موجودگی کتنی اہم ہے۔ وصال کے بعد اہل بیتؑ کو بطور منبع ہدایت اور اخلاق زیادہ نمایاں مقام ملا۔ انہوں نے نبی اکرمؐ کی تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر معاشرے کو راہِ حق پر قائم رکھنے کی کوشش کی۔ یہ دور اس بات کا درس دیتا ہے کہ اگر معاشرہ الٰہی اصولوں اور اقدار پر قائم رہے تو نبی اکرمؐ کے بعد بھی خدائی ہدایت کارگر رہ سکتی ہے۔

ایکنا: کیوں امت کی ہمبستگی نبی اکرمؐ کے وصال کے بعد متزلزل ہوئی؟ یہ اختلافات دراصل کچھ افراد کی خودغرضی، ذاتی رجحانات اور خودمرکزی کا نتیجہ تھے۔ اہل بیتؑ کی ہر بات وحی اور خدائی ہدایت سے جڑی ہوئی تھی، جبکہ کچھ دیگر افراد نے اپنی رائے اور فیصلوں کو اصل بنا لیا اور خودپرستی میں مبتلا ہوئے۔ ذاتی مفادات اور اقتدار کی خواہش نے امت کی وحدت کو نقصان پہنچایا اور افراد نے خدائی اصولوں کے بجائے اپنی خواہشات کو ترجیح دی۔ نبی اکرمؐ وحدت کا مرکز تھے اور ان کی غیرموجودگی نے خودمرکزی اور ذاتی خواہشات کے ظہور کا موقع فراہم کیا، جس سے اختلاف اور تفرقہ پیدا ہوا۔ یہ تاریخی مرحلہ ہم سب کے لیے بڑا سبق ہے کہ براہِ راست نبوی رہنمائی کے بغیر معاشرہ اخلاقی، سیاسی اور سماجی چیلنجز کا سامنا کرتا ہے۔ سماجی یکجہتی، عدل، اخلاق اور صداقت وہ ستون ہیں جن پر ایک مضبوط معاشرہ قائم رہتا ہے، اور ان میں سے کسی کو نظرانداز کرنا یا خودغرضی کا شکار ہونا معاشرتی انسجام کو خطرے میں ڈال دیتا ہے۔

ایکنا: موجودہ دنیا، جو اخلاقی و سماجی بحرانوں کا شکار ہے، نبی اکرمؐ سے کیا پیغام حاصل کرسکتی ہے؟ نبی اکرمؐ کا بنیادی پیغام توحید اور الٰہی اخلاق کے ذریعے نجات ہے۔ انسان کی کامیابی کا راز «لا اله الا الله» کے راستے پر چلنے میں ہے۔ یہی اصول اخلاق، سماجی رویوں اور انسانی نظامِ زندگی کا محور ہے۔ اگر آج کا انسان اپنی سائنسی و تکنیکی ترقی کے باوجود اس اصول کو نظرانداز کرے تو اخلاقی اور سماجی بحرانوں میں مبتلا ہوگا۔ کائنات خدائی قوانین کے تحت منظم ہے؛ سورج اور چاند بغیر کسی انحراف کے اپنے مدار میں ہیں، یہ سب الٰہی وحدت اور نظم کا نتیجہ ہے۔ اگر انسان بھی خدائی وحدت کے راستے پر چلے تو معاشرہ فطرت کی طرح ہم آہنگ اور خوبصورت ہوگا۔ نماز اس وحدت کی بہترین مثال ہے، جہاں مختلف سماجی حیثیتوں والے افراد ایک صف میں، ایک سمت میں کھڑے ہوتے ہیں۔ یہ خدا کے حضور برابری اور اتحاد کی علامت ہے۔ اگر یہی روح معاشرے میں پیدا ہو جائے تو اختلافات، جھگڑے اور اخلاقی بحران کم سے کم ہوں گے اور انسان ترقی و نجات کے سفر پر گامزن ہوں گے۔ نبی اکرمؐ کی تعلیمات موجودہ دنیا کو یہ بھی پیغام دیتی ہیں کہ مہربانی، خوش اخلاقی اور انسانی برتاؤ وحدت اور عدلِ اجتماعی کے ضامن ہیں۔ اگر معاشرہ ان اصولوں پر کاربند ہو تو بڑے سماجی و معاشی بحران بھی حل کیے جاسکتے ہیں۔ اسی طرح آپؐ کی سیرت یہ دکھاتی ہے کہ ہمدلی، درگزر اور دوسروں کے حقوق کا احترام معاشرتی استحکام کی بنیاد بن سکتا ہے۔ آج کی دنیا، جو نسلی، مذہبی اور سماجی اختلافات سے دوچار ہے، اگر نبی اکرمؐ کی تعلیمات اور اخلاق سے رہنمائی لے تو صلح، عدل اور بقائے باہمی کا راستہ اختیار کر سکتی ہے۔/

 

4301753

ٹیگس: سیرت ، وحدت ، رسول ، استاد
نظرات بینندگان
captcha