ایکنا نیوز-اسلام ٹائمز۔ جمعرات کی صبح 50: 7 پر، چین کے مغربی صوبے سنکیانگ کے دارالحکومت اورومچی کے ایک بازار میں دو گاڑیوں پر حملہ آور آئے اور انھوں نے بازار میں بارودی مواد پھینکا، دھماکے کے نتیجے میں 31 افراد ہلاک جبکہ 90 سے زیادہ لوگ زخمی ہو گئے ہیں۔ چین کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ژنہوا نے کہا ہے کہ حملے میں استعمال ہونے والی ایک گاڑی دکانوں سے ٹکرا کر تباہ ہو گئی۔ ایجنسی کی خبروں میں کہا گیا ہے کہ اس واقعے میں کم از کم 90 افراد زخمی ہوئے ہیں جنھیں فوری طور پر ہسپتال لے جایا گیا ہے جبکہ مزید ہلاکتوں کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ عوامی سکیورٹی کی وزارت نے اسے شدید دہشت گردانہ حملہ قرار دیا ہے۔ ابھی تک کسی گروہ نے حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔ ژنہوا نے بتایا کہ بازار میں حادثے کی جگہ آگ کے شعلے اور دھوئیں اٹھتے نظر آئے۔ واضح رہے کہ چین کے سنکیانگ صوبے میں وقتاً فوقتاً تشدد کے واقعات بھڑک اٹھتے ہیں۔ ذرائع اس دہشت گردی کے واقعہ کو چینی عدالت کی طرف سے 39 افراد کو دھماکوں کے الزام میں جیل بھیجے جانے کا رد عمل قرار دے رہے ہیں۔ چینی عدالت نے دور افتادہ سنکیانگ کے مغربی علاقے میں 39 افراد کو قید کی سزا سنائی تھی، جن پر دہشت گردی پر آمادہ کرنے سے متعلق وڈیوز کی تشہیر کرنے کے لگائے گئے الزامات ثابت ہوئے تھے۔
یاد رہے کہ اویغور نسلی طور پر ترکی مسلمان ہیں، سنکیانگ میں ان کی آبادی 45 فی صد ہے، جبکہ چینی نسل کے ہان کی آبادی 40 فی صد ہے۔ چین نے مشرقی ترکستان کی مختصر ریاست کے بعد اسے سنہ 1949 میں اپنے قبضے میں لے لیا تھا، اس کے بعد سے وہاں ہان نسل کے چینی باشندوں کی بڑی تعداد نقل مکانی جاری ہے، اویغور کو یہ خوف ہے کہ اس سے ان کی روایتی تہذیب ختم ہو جائے گی۔ مقامی میڈیا کا کہنا ہے کہ عینی شاہدین نے حادثے کے وقت کئی دھماکوں کی آوازیں سنی ہیں۔ یہ صوبہ مسلم اقلیت اویغور کا آبائی صوبہ تصور کیا جاتا ہے۔ گذشتہ ماہ اورومچی کے ریلوے سٹیشن پر ایک بم حملے میں تین افراد ہلاک جبکہ کئی درجن زخمی ہو گئے تھے۔ چین نے اس حملے کے لیے اویغور علیحدگی پسندوں کو ذمے دار ٹھہرایا تھا۔ چین کے انتہائی مغربی علاقے کی خبروں پر زبردست کنٹرول رکھا جاتا ہے۔ اس علاقے میں اویغور اور چین کے ہان قبیلے کے درمیان نسلی تصادم ہوتے رہتے ہیں۔