ایکنا انٹرنیشنل ڈیسک کے مطابق امریکی اخبار دی ہل نے امریکی قدامت پسندوں کے ادارے دی انٹرپرائز (American Enterprise Institute) نامی ادارے کے رکن مائیکل رابن (Michael Rubin) کے قلم سے ایک یادداشت شائع کی ہے جس میں اس نے بائیڈن کی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہوئے لکھا ہے: "اس جنگ کے ہمیشہ کے لئے خاتمے کا وقت آن پہنچا ہے"؛ یہ صدر بائیڈن کے الفاظ تھے جو انھوں نے افغانستان سے امریکی افواج کے اعلان کے وقت ادا کئے۔ اگرچہ افغانستان سے امریکیوں کے ہنگامہ خیز انخلاء کے ساتھ بائیڈن کے ایک انتخابی نعرے پر عملدرآمد ہوچکا مگر یہ امریکی خارجہ پالیسی کے حوالے سے بہت بڑی غلطی تھی۔ آپ یوکرین کی طرف توجہ نہ کریں "صدر پیوٹن سمجھ گئے کہ افغانستان سے امریکی انخلاء کا مطلب یہ ہے کہ وہ روس کے ساتھ دو دو ہاتھ کرنے کے لئے تیار نہیں ہے"؛ اور ادھر ایران نے بھی اس موقع کو غنیمت سمجھا، تہران نے ویانا میں ہونے والے جوہری مذاکرات میں امریکی سفارتکاروں کو بدستور دھوکے میں رکھا ہے اور سعودی عرب اور عرب امارات جیسے تیل پیدا کرنے والے ممالک پر حوثی جنگجؤوں کے حملوں کی مدد و حمایت کرتا ہے اور توانائی کے بحران کو ہوا دیتا ہے جو پوری دنیا میں پھیل گیا ہے۔
حال ہی میں عراق کے شمالی شہر اربیل [میں اسرائیلی جاسوسی مرکز] پر سپاہ پاسداران کے [میزائل] حملے نے واضح کیا کہ ایران مزید عراقی عسکریت پسندوں کے ذریعے حملے کروانے کی زحمت بھی گوارا نہیں کرتا اور خود ہی براہ راست حملوں کو ترجیح دیتا ہے۔ (1) رابن نے خطے کے ممالک کو امریکی سے مزید ہتھیار خریدنے پر آمادہ کرنے کی دیرینہ امریکی شر انگیزیوں کو جاری رکھتے ہوئے مزید لکھا ہے: خطے کے ممالک جانتے ہیں کہ کونسی چیز ان کا انتظار کر رہی ہے، کیونکہ انھوں نے اس سے پہلے سب کچھ دیکھ لیا ہے!
انھوں نے ایٹمی معاہدے سے امریکہ کی علیحدگی سے موجودہ حکمرانوں کی پشیمانی کو نظر انداز کرتے ہوئے لکھا ہے کہ 2015ع کا ایٹمی معاہدہ علاقائی تشدد میں اضافے کا باعث ہؤا لیکن اس وقت عالمی نقطۂ نگاہ بدل چکا ہے اور خطرات میں اضافہ ہؤا ہے۔ امریکہ زیادہ خطرات مول لے رہا ہے اور صورت حال یہ ہے کہ واشنگٹن "بے انتہا جنگوں" کا خاتمہ کرنے کے بجائے، شاید مزید محاذوں کو کھول رہا ہے اور یہ سب بائیڈن کی پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔