ایکنا نیوز- بلاشک کھانے پینے کے بعد اہم ترین ضرورت محبت ہے اور انسان فطری طور پر محبت چاہتا ہے۔
محبت افراد میں پیوند کا عامل ہے اور اس رابطے کے بغیر کوئی انسان ذمہ داری نہیں اٹھاتا اور کوئی فداکاری نہ ہوتی۔
محبت کی طاقت تربیت میں بھی بہت اہم ہے اور بڑی تبدیلیاں لاسکتی ہے اگر اس سے درست استفادہ کی جائے۔
اسی لیے خدا نے اپنے رسول کو محبت کی روش سے نوازا تھا اور وہ اس کی مدد سے لوگوں کی تربیت کرتے کیونکہ محبت اطاعت لاتی ہے۔
محبت اور اطاعت میں ایک خاص رابطہ ہوتا ہے اور محبت کے ایجاد سے ہم رنگی پیدا ہوتی ہے کہ جس سے محبت ہوجائے اس کی اطاعت بھی کی جاتی ہے اور اس کی طلب سے انکار نہیں کیا جاتا لہذا محبت کی روش سے بڑھکر کوئی روش موثر نہیں۔
حضرت موسی (ع) بھی اپنی قوم سے بیحد محبت کرتا تھا اور انکے لیے اس وقت کی طاقتور حکومت سے لڑ پڑے اور انکے بہانہ بازیوں کے باوجود ان سے محبت آمیز رویہ رکھتے تھے۔
حقیقت میں مربی یا استاد کو محبت اور خلوص کے ساتھ بات کرنا چاہیے جیسے اے میری قوم کا جملہ حضرت موسی فرماتے یا ان سے کہتے کہ میرا اور تمھارا رب۔
سورہ طہ میں ارشاد ہوتا ہے «فَرَجَعَ مُوسى إِلى قَوْمِهِ غَضْبانَ أَسِفاً قالَ یا قَوْمِ أَ لَمْ یَعِدْکُمْ رَبُّکُمْ وَعْداً حَسَناً أَ فَطالَ عَلَیْکُمُ الْعَهْدُ أَمْ أَرَدْتُمْ أَنْ یَحِلَّ
عَلَیْکُمْ غَضَبٌ مِنْ رَبِّکُمْ فَأَخْلَفْتُمْ مَوْعِدِی ؛ اے میری قوم ! مگر رب نے موسی کو جو غضب کی حالت میں لوٹے تھے اچھا وعدہ نہ دیا اور کہا کیا میری جدائی میں طول آیا یا چاہتے تھے کہ خدا کے غضب کو دعوت دو کہ میرے وعدے کی خلاف ورزی کی۔؟»(طه: 86)