ایکنا کی رپورٹ کے مطابق، گنبد حضرت موسی علیہ السلام، فلسطین کا پہلا مرکزِ قرآن تعلیم ہے، جو مسجد الاقصی میں باب السلسلہ اور گنبد النحویہ کے درمیان واقع ہے۔ یہ گنبد ایوبی سلطان صالح نجمالدین ایوب نے 1249ء میں تعمیر کیا تھا اور یہ مسجد الاقصی میں ایوبی سلطنت کا آخری تعمیراتی کارنامہ تھا۔ مملوک دور میں یہ گنبد عدالتی اجلاسوں کے انعقاد کے لئے استعمال ہوتا تھا۔
گنبد حضرت موسی علیہ السلام، قدس شہر میں واقع مسجد الاقصی کے اندر موجود ہے، جس کے مغرب میں باب السلسلہ اور مشرق میں گنبد النحویہ ہے، جبکہ یہ قبة الصخرہ کی جنوبی مغربی طاقوں کے قریب واقع ہے۔ اس کی تعمیر کے نقوش اور بنانے والے کا نام اس کے داخلی دروازے پر بھی موجود ہیں۔
گنبد کے نام کی وجہ کے متعلق مختلف روایات موجود ہیں۔ بعض کا کہنا ہے کہ یہ گنبد ایک شیخ کے نام پر ہے جو یہاں امام جماعت تھے، جبکہ دیگر روایات کے مطابق اس کا نام امیر موسی بن حسن الهدبانی کے نام پر ہے، جو 737 ہجری (1337ء) میں باب السلسلہ سے باب المغاربہ تک بننے والے رواق کے نگران تھے۔
گنبد حضرت موسی علیہ السلام ایک 7x7 مربع کمرہ ہے، جس کے اوپر ایک گول گنبد ہے جو آٹھ کونوں والے ستونوں پر قائم ہے، اور یہ گنبد کمرے اور گنبد کے درمیانی جوڑ کے طور پر کام کرتا ہے۔ اس میں 6 کھڑکیاں اور جنوب کی طرف ایک دیوار سے نکلا ہوا محراب ہے۔ شمال کی جانب سے اس کا داخلہ ہے، اور یہ ایک بلند سطح پر واقع ہے جس کے اطراف میں محرابیں موجود ہیں۔ شمال کے علاوہ ہر جانب دو کھڑکیاں ہیں۔
قاضی مجیرالدین حنبلی نے مملوک دور کے آخر میں یہاں عدالتی اجلاس منعقد کیے، جبکہ عثمانی دور میں یہاں سماع کی محفلیں بھی ہوتی رہیں، اور متعدد نادر خطی نسخے بھی تحریر کیے گئے۔
2024ء میں، اس گنبد کو اس کی اصل حیثیت، یعنی قرآن تعلیم مرکز کے طور پر بحال کر دیا گیا ہے، اور اب یہاں قرآن حفظ اور تلاوت کی کلاسز کا انعقاد ہوتا ہے۔ یہ گنبد فلسطین کے پہلے دارالقرآن کے طور پر جانا جاتا ہے، اور یہاں سے متعدد قرآنآموز فارغ التحصیل ہو چکے ہیں۔/
4248708