ایکنا نیوز- الجزیرہ نیوز چینل کے مطابق بھارتی پارلیمنٹ نے ایک مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کی مدت میں توسیع کر دی ہے، جو حکومت کی جانب سے پیش کیے گئے وقف قانون میں ترمیم کے مسودے کا جائزہ لے رہی ہے۔ یہ مسودہ وقف املاک، جن میں مساجد، قبرستان، زیارتگاہیں، مدارس، طبی ادارے، اور دیگر جائیدادیں شامل ہیں، کے انتظام کے لیے نیا قانونی ڈھانچہ فراہم کرنے کے لیے تیار کیا گیا ہے۔
یہ مسودہ، جو اگست میں پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا تھا، حزب اختلاف کی جماعتوں بشمول کانگریس، کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا، اور ترینامول کانگریس کی شدید مخالفت کا سامنا کر رہا ہے۔ ساتھ ہی اسلامی سول سوسائٹی کی تنظیموں نے بھی اپنی مخالفت ظاہر کی ہے اور حکومت پر الزام لگایا ہے کہ وہ بھارتی مسلمانوں کی وقف املاک پر قبضہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
مخالفتوں کے بعد، یہ مسودہ ایک مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کو بھیجا گیا، جس میں حکمراں جماعت اور حزب اختلاف کے اراکین شامل ہیں، تاکہ ایسا قانون بنایا جا سکے جو ان اعتراضات کو دور کرے۔ اس مسودے نے مسلمانوں اور مخالفین کے درمیان بڑے پیمانے پر خدشات پیدا کیے ہیں۔
تامیل ناڈو کی وقف کونسل کی رکن، فاطمہ مظفر، نے الجزیرہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ وقف قانون کے تحت، بھارت کی ہر ریاست میں وقف املاک کے انتظام کے لیے ایک بورڈ قائم کیا گیا ہے، جو مرکزی وقف کونسل کے تحت کام کرتا ہے۔ یہ کونسل وزارت اقلیتی امور کے ماتحت ہے۔ تاہم، وقف املاک سرکاری جائیداد نہیں بلکہ نجی جائیدادیں ہیں، جنہیں وقف کے قواعد و ضوابط کے تحت چلایا جاتا ہے۔
کانگریس کے رکنِ پارلیمنٹ سید ناصر حسین نے مسودے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ قانون نہایت کمزور طریقے سے تیار کیا گیا ہے، قانونی منطق سے خالی ہے، اور کسی متعلقہ فریق سے مشورے کے بغیر جلد بازی میں پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا۔ ان کے مطابق، موجودہ وقف قانون میں ترمیم کی کوئی فوری ضرورت نہیں تھی، کیونکہ اس کے خلاف کوئی بڑی شکایت یا اصلاح کی درخواست موجود نہیں تھی۔/
4251877