ایکناء نیوز کے مطابق، انسانی حقوق اور آزادی اظہار کے حوالے سے مغربی ممالک کے دوہرے معیار ہمیشہ سے سوالات کا باعث رہے ہیں۔ ان کی دوغلی پالیسیوں کا ایک نمایاں پہلو مسلمانوں کے مقدسات کی توہین کی آزادی اور بیک وقت صہیونی حکومت پر معمولی تنقید پر بھی سخت پابندی ہے، جسے وہ یہود دشمنی کے نام پر ناجائز قرار دیتے ہیں۔
الجزیرہ مباشر میں نجلاء محفوظ نے اس حوالے سے لکھا ہے کہ گزشتہ برسوں میں قرآن کریم کی توہین کے واقعات مغربی سیاستدانوں کی حمایت، جواز تراشی اور تحسین کے سائے میں کئی بار دہرائے گئے ہیں ، وہی سیاستدان جو آزادی عقیدہ کا نعرہ لگاتے نہیں تھکتے۔ یہی لوگ جب کسی ایسی چیز کا سامنا کرتے ہیں جسے وہ "یہود دشمنی" کہتے ہیں تو پوری دنیا کے کان ان کی چیخ و پکار سے بہرے ہو جاتے ہیں۔
قابلِ غور بات یہ ہے کہ بعض افراد جان بوجھ کر مسلمانوں کی مذہبی مناسبتوں کو قرآن کی توہین کے لیے چنتے ہیں، جیسے رمضان، عیدین، اور حج کے ایام ۔ مثلاً 2023 میں ایک شخص نے عیدالاضحی کے دن سویڈن میں ایک مسجد کے سامنے قرآن کو آگ لگا دی، یا نیدرلینڈز کے انتہا پسند سیاستدان خیرت ویلڈرز نے رمضان میں ایک ویڈیو شائع کی جس کا عنوان تھا:
"اسلام کو نہ کہو، رمضان کو نہ کہو، دینِ اسلام کی آزادی کو نہ کہو!"
ہر بار جب قرآن کو جلایا جاتا ہے یا نبی اکرم ﷺ کی توہین کی جاتی ہے، مغربی میڈیا میں شور تو مچتا ہے، مگر یہ شور توہین کرنے والوں کی مذمت کے بجائے مسلمانوں کے خلاف ہوتا ہے، اور توہین پر مشتعل مسلمانوں کو آزادی دشمن قرار دے دیا جاتا ہے!
سوال یہ ہے: اسلام کو مسلسل نشانہ بنانے کی وجہ کیا ہے؟
مسلمانوں کے عقائد کی دانستہ توہین صرف قرآن کی بے حرمتی تک محدود نہیں۔ 2012 میں ایک توہین آمیز فلم "Innocence of Muslims" (مسلمانوں کی معصومیت) بنائی گئی، جس میں رسول اکرم ﷺ کی توہین کی گئی۔ فرانسیسی میگزین شارلی ایبدو نے بھی کئی بار رسول اکرم ﷺ کے گستاخانہ کارٹون شائع کیے اور پوری مسلم دنیا کے احتجاج کو نظر انداز کیا۔ فرانس کے صدر نے ان اقدامات کی مذمت سے انکار کیا اور اسے "آزادی عقیدہ" کا نام دے کر اس کا دفاع کیا۔
مغرب اور امریکہ نے اس حقیقت کے باوجود کہ تمام مسلمان قرآن کی توہین کو ناقابل برداشت سمجھتے ہیں، اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں اس عمل کی مذمت کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کیں۔
بعض ماہرین کا ماننا ہے کہ قرآن جلانے جیسے اقدامات کے پیچھے سیاسی مقاصد ہیں جنمیں مسلمانوں کو دیگر مذاہب سے الگ تھلگ کرنے کی کوشش شامل ہے۔ سویڈن میں، مثال کے طور پر، تورات (یہودیوں کی کتاب) کو جلانے کی اجازت نہیں دی جاتی، لیکن بارہا قرآن کو جلانے کی اجازت دی گئی اور توہین کرنے والوں کو پولیس تحفظ بھی فراہم کیا گیا۔
مارٹن شولتر، جو سویڈن کی اسٹاک ہوم یونیورسٹی میں شہری قانون کے پروفیسر ہیں، لکھتے ہیں: "مسلمانوں کو مجرم قرار دینا جرم ہے، لیکن قرآن کو جلانا جرم نہیں، کیونکہ قانون کے مطابق یہ عمل کسی خاص گروہ پر حملہ نہیں بلکہ مذہب اسلام پر حملہ ہے۔" قوانین کے مطابق قرآن کی توہین جرم نہیں کیونکہ یہ کسی مخصوص کمیونٹی پر نہیں بلکہ ایک عقیدے پر حملہ ہے اور سویڈن میں اسے قانون کی خوبی سمجھا جاتا ہے، خامی نہیں!
ڈنمارک کا انتہا پسند سیاستدان راسموس پالودان 2017 سے کئی بار قرآن جلانے کے واقعات میں ملوث رہا ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ اس کا مقصد عوام میں مقبولیت حاصل کرنا ہے تاکہ انتخابات میں کامیابی ممکن ہو، اور وہ آزادی اظہار کی آڑ میں نفرت انگیزی کو سیاسی فائدے کے لیے استعمال کرتا ہے۔
حقیقی مسئلہ محض چند انتہا پسند سیاستدان نہیں، بلکہ وہ بڑھتی ہوئی تعداد ہے جو یورپ اور امریکہ میں ایسے انتہا پسند گروہوں کو ووٹ دے رہی ہے۔
یقیناً، جتنا کوئی فرد مہذب، باشعور اور انسانیت پسند ہوتا ہے، اتنا ہی وہ دوسروں کے عقائد اور مقدسات کا احترام کرتا ہے، اور کسی صورت بھی چاہے اشارۃً ہو یا صراحتاً، دوسروں کے عقائد کی توہین نہیں کرتا۔/
4268245