ایکنا نے الجزیرہ اور ویبسائٹ TRT World کے حوالے سے رپورٹ کیا ہے کہ بھارت میں "قانونِ اوقاف" میں کی جانے والی حالیہ ترمیم نے تقریباً 20 کروڑ بھارتی مسلمانوں میں ایک بار پھر عدم تحفظ کا احساس پیدا کر دیا ہے۔ اس قانون کو بھارتی پارلیمنٹ کے 288 ارکان کی حمایت حاصل ہے، حالانکہ 232 ارکان نے اس کی شدید مخالفت کی اور عوامی سطح پر بھی اس کے خلاف مظاہرے کیے گئے، اس کے باوجود یہ قانون منظور کر لیا گیا۔
رپورٹ کے مطابق، نئے قانون کے تحت غیر مسلم افراد کو اسلامی اوقاف کی کمیٹیوں میں شامل ہونے کی اجازت دی گئی ہے، اور اسلامی فلاحی و دینی املاک پر حکومتی نگرانی کو مزید وسیع کر دیا گیا ہے۔
بہت سے بھارتی مسلمان اس قانون کو حکومت کی جانب سے سرکاری اداروں کی ساخت تبدیل کر کے اوقافی اداروں پر کنٹرول بڑھانے کی کوشش کے طور پر دیکھتے ہیں، جس کا مقصد "قانونی اصلاحات" کی آڑ میں مسلمانوں کو ان کے حقوق سے محروم کرنا اور حکومت کا رویہ مسلمانوں کے ساتھ مزید تشویشناک بنانا ہے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ یہ اقدام اس وقت کیا گیا ہے جب بھارت بھر میں مساجد اور دیگر اسلامی آثار پر قانونی و سیاسی تنازعات شدت اختیار کر رہے ہیں، اور دائیں بازو کی جماعتیں مسلسل ان مذہبی و تاریخی مقامات کی حیثیت اور جواز کو چیلنج کر رہی ہیں۔
اس رپورٹ میں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ اسلامی اوقاف کا جنوبی ایشیا میں ایک طویل تاریخی پس منظر ہے۔ وقف املاک کا ڈیٹا "وقف مینجمنٹ سسٹم" کے مطابق بھارت میں مجموعی طور پر 356,352 وقف املاک ہیں، جن میں سب سے زیادہ اوتار پردیش میں (124,866)، کرناٹک میں (33,147) اور مغربی بنگال میں (7,060) واقع ہیں۔
بھارتی وزارت اقلیتی امور کے مطابق، ملک بھر کی اوقافی جائیدادوں کی مجموعی مالیت 14.22 ارب ڈالر ہے جو بھارت کی 30 ریاستوں میں پھیلی ہوئی ہیں۔ مزید یہ کہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 73,000 سے زائد وقف املاک مختلف تنازعات کا شکار ہیں، جو اس نئے قانون سے متاثر ہو سکتی ہیں۔
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے اس قانون کو ایک "تاریخی موڑ" قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ یہ اقدام مذہبی اور فلاحی اداروں میں کارکردگی اور شفافیت پیدا کرنے کے حکومتی ایجنڈے کا حصہ ہے۔/
4275845