ڈان نیوز کے مطابق کابل پر طالبان کا کنٹرول حاصل ہوئے ایک ماہ کا مختصر وقت گزرا ہے اور اس اقدام کو خواتین کے حقوق کو محدود کرنے کی کوشش کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔
90 کی دہائی میں طالبان نے اپنی سابقہ حکومت کے دوران لڑکیوں اور خواتین کو تعلیم کے حق سے محروم اور انہیں عوامی زندگی سے روک دیا تھا۔
طالبان کو حکومتی امور فعال رکھنے کے لیے بڑے معاشی بحران اور سیکیورٹی مسائل کا سامنا ہےاور آئی ایس کے عسکریت پسندوں کی طرف سے بڑھتا ہوا چیلنج ان کے وسائل کو مزید بڑھا رہا ہے۔
کابل میں امور خواتینِ کی وزارت کے باہر ایک نئی تحریر ویزاں تھی کہ جس پر اعلان کیا گیا کہ اب یہ ’تبلیغ اور رہنمائی کی وزارت‘ ہے جہاں سے نیک کام کرنے کی تبلیغ اور برائی سے روکنے کی تلقین کا کام ہوگا۔
ورلڈ بینک کے 10 کروڑ ڈالر کے وومن اکنامک امپاورمنٹ اینڈ رورل ڈیولپمنٹ پروگرام سے وابستہ شریف اختر نے بتایا کہ انہیں اور دیگر عملے کو عمارت سے باہر نکال دیا۔
افغان خواتین کے نیٹ ورک کی سربراہ مابوبا سورج نے کہا کہ وہ طالبان کی حکومت کی جانب سے خواتین اور لڑکیوں پر پابندی لگانے کے احکامات سے حیران رہ گئی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ واقعی بہت پریشان کن صورتحال ہے، کیا یہ وہ لمحہ ہے جہاں لڑکیوں کو نظرانداز کیا جا رہا ہے؟
ان کا کہنا تھا کہ میں جانتی ہوں کہ وہ (طالبان) وضاحت دینے پر یقین نہیں رکھتے، لیکن وضاحتیں بہت اہم ہیں۔
مابوبا سورج نے کہا کہ متضاد بیانات شاید طالبان کے اندر تقسیم کی عکاسی کرتے ہیں کیونکہ وہ اپنی طاقت کو مستحکم کرنے کے لیے کوشاں ہیں، تحریک کے اندر موجود سخت گیر لوگوں سے وہ ہار رہے ہیں۔
افغان نژاد امریکی مابوبا سورج 2003 میں خواتین کے حقوق اور تعلیم کے فروغ کے لیے افغانستان واپس آئی تھیں اور ان کے مطابق بہت سے ان کے ساتھی کارکن ملک چھوڑ چکے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ وہ طالبان کے ساتھ رابطے اور درمیانی راستہ تلاش کرنے کی کوشش میں رہی ہیں لیکن اب تک سماجی کارکنوں سے ان کی ملاقات کی صورت نہیں بن سکی۔
مابوبا سورج نے زور دیا کہ ہمیں بات کرنی ہے، ہمیں ایک درمیانی راستہ تلاش کرنا ہوگا۔