کندوز کی مسجد میں نمازیوں پر حملہ

IQNA

کندوز کی مسجد میں نمازیوں پر حملہ

7:47 - October 10, 2021
خبر کا کوڈ: 3510396
طالبان حکومت کے لیے افغان عوام کی حفاظت ایک بڑا چیلنج

طالبان کی امارت اسلامیہ کی زیر کنٹرول افغانستان میں اہل تشیع پر یہ پہلا حملہ ہے جو 8اکتوبر کو کندوز کی جامع مسجد میں ہوا اور اس حملے کی دولت اسلامیہ خراسان یعنی داعش خراسان نامی انتہائی وحشی تنظیم نے ذمہ داری قبول کی داعش دہشتگردوں سے وابستہ سوشل میڈیا کے مطابق اس خودکش حملے کو ایک چینی ایغوری باشندے محمد ایغوری نے انجام دیا ہے

کندوز شہر کی مسجد سید آباد، شہر کے مرکز میں واقع ایک جامع مسجد ہے مسجد کے اطراف میں موجود آبادی ہزاہ،ازبک ،تاجیک ،پشتون اور دیگر اقوام پر مشتمل ہے لیکن اس ایریا کو کندوز شہر میں آباد شیعہ مسلک کے افراد کا دل بھی کہا جاتا ہے

اس قدیمی مسجد کی کئی بار توسیع کی گئی اور اب یہ مسجد تقریبا300نمازیوں کے لئے گنجائیش رکھتی ہے

ہر جمعہ یہ مسجد نہ صرف کچھاکچھ بھری ہوتی ہے بلکہ مسجد کے باہر بھی نمازیوں کی صفیں لگ جاتیں ہیں یہی وجہ ہے کہ اس بات کا پورا خدشہ ہے کہ شہید نمازیوں کی تعداد دو سو سے تجاوز کرجائے ۔

افغانستان میں اس وقت علاج معالجے کی صورتحال انتہائی مخدوش ہے کندوز میں موجود دو اہم ہسپتالوں میں بنیادی سہولیات کا شدید فقدان ہے افغانستان میں موجود زرائع کا کہنا ہے کہ بہت سے زخمی مناسب علاج کے عدم حصول کے سبب جانبرد نہیں ہورہے ہیں

مساجد کے ذمہ داروں کا کہنا ہے کہ طالبان سے پہلے پورا افغانستان اہل تشیع کے لئے محفوظ نہیں تھا لیکن طالبان کی آمد کے بعد داعش کی جانب سے کھلے اعلان نے مزید خطرات سے دوچار کیا ہے

طالبان رہنما مسلسل ا س کی تکرار کرتے ہیں کہ ’’ افغانستان میں شیعوں پردہشتگردانہ حملے دشمن کا کام تھے اور یہ کہ طالبان تمام طبقات اور خاص طور پر شیعوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے پرعزم ہیں‘‘

لیکن دوسری جانب طالبان کی جانب سے اس مسجد سمیت دیگر مساجد میں موجود سیکوریٹی نظام کو ختم کرنے اور پرائیویٹ سیکوریٹی گارڈز و اسلحہ کے خاتمے کا قانون کا چندہفتے پہلے ہی اعلان کرچکے تھے اور اس پر سختی سے عمل درآمد کروارہے ہیں

داعش دہشتگردوں نے خود طالبان کو بھی نشانہ بنایا ہے تاہم ، قندوز کاالمناک واقعہ ایک بار پھر ظاہر کرتا ہے کہ طالبان اور افغان عوام کو درپیش سیکورٹی چیلنجز بہت سنگین ہیں ، اور تکفیری دہشت گردی ایک قومی اور عوامی جدوجہد کا تقاضا کرتی ہے اور اس قسم کی جدوجہد طالبان کے بس کی بات نہیں ہے

ماضی میں ہونے والے سینکڑوں واقعات میں طالبان نے ہمیشہ  اپنے ملوث ہونے سے انکار کیا ہے ، اورشہریوں کے قتل کی مذمت کرتے ہوئے اس کا ذمہ دار کابل حکومت کی انٹیلی جنس اور عسکریت پسند گروہوں کوٹھہرایا ہے۔

لیکن اس وقت طالبان اس قسم کے حملوں کاالزام داعش یا بیرونی عوامل پر ڈال کر اپنی ذمہ داری سے نظریں چھپانہیں سکتی ،طالبان افغانستان میں امن و امان کے نعرے کے ساتھ واپس آئے ہیں لہذا امن کا قیام ان کی بنیادی ترجیح ہونی چاہیے

طالبان کو یہ ثابت کرنا ہوگا کہ وہ غیر ملکی مداخلت کی ضرورت کے بغیر دہشت گردی سے لڑنے کے لیے مکمل طور پر تیار ی رکھتے ہیں ، اور  افغان عوام کی سلامتی ، فلاح و بہبود ، استحکام اور صحت ان کے ناقابل تردید فرائض میں سے ہیں ۔

طالبان کو زبانی کلامی باتوں سے ہٹ کر عملی طور پر ثابت کرنا ہوگا کہ وہ داعش ،القاعدہ ،ٹی ٹی پی جیسے دہشتگرد گروہ سے کسی قسم کی کوئی ہمدردی نہیں رکھتے اور نہ ہی انہیں افغانستان اور خطے کے مسائل میں اپنے تزویراتی زخائر سمجھتے ہیں ۔

نظرات بینندگان
captcha