"اسلامائزیشن" کا وہم؛ مسلمانوں کے خلاف ناروے والوں کی دشمنی کا سبب

IQNA

تحقیق سے ثابت:

"اسلامائزیشن" کا وہم؛ مسلمانوں کے خلاف ناروے والوں کی دشمنی کا سبب

16:25 - November 07, 2022
خبر کا کوڈ: 3513067
ایکنا تھران- تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ ناروے کے ایک تہائی لوگ مسلمانوں کے بارے میں منفی سوچ رکھتے ہیں۔ نیز اس ملک کے بہت سے لوگ ناواقفیت اور صحیح معلومات کی کمی کی وجہ سے مسلمانوں سے خوفزدہ ہیں۔

ایکنا کے مطابق لائف ان ناروے کا حوالہ دیتے ہوئے، ایسا لگتا ہے کہ ناروے میں بہت سے لوگ اسلام سے بہت خوفزدہ ہیں۔ لیکن آخر یہ کیسے ہوا؟

مسلمان اپنے آپ سے پوچھتے ہیں کہ کیا ناروے اپنے مذہب پر رہنے اور اس پر عمل کرنے کے لیے محفوظ جگہ ہے؟ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ نارویجن عوام میں مسلمانوں کے بارے میں شدید خوف پایا جاتا ہے۔ ناروے کے میڈیا میں اسلامو فوبیا یا مسلمانوں سے نفرت ایک اصطلاح ہے جو اسلام اور مسلمانوں کے خلاف تعصب، خوف اور دشمنی کو بیان کرنے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔

 

‌اسلامو فوبیا، ناروے کے دہشت گردوں کو اکسانے کا سبب

 

بہت سے لوگ شاید نہیں جانتے ہوں گے کہ 22 جولائی 2011 کو ہونے والا دہشت گردانہ حملہ، جس میں 77 لوگ مارے گئے تھے، کسی نہ کسی طرح اسلاموفوبیا سے متاثر تھا۔ بروک نامی ایک دہشت گرد نوجوان ایک طرح کی سازشی تھیوری (Conspiracy theory) پر یقین رکھتا تھا اور اس کا خیال تھا کہ یورپ میں سیاسی اور علمی اشرافیہ مسلم امیگریشن بڑھانے کے لیے عرب ممالک کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں۔

یوریبیا (Eurabia) نام سے مشہور سازشی تھیوری کو پورے یورپی براعظم میں سفید فام بالادستی لوگ پسند کرتے ہیں۔ وہ اس غلط فہمی میں بھی ہیں کہ یہ یورپی تہذیب کو تباہ کرنے اور یورپ کو اسلامی کالونی میں تبدیل کرنے کی سازش ہے۔

اگرچہ ناروے کے صرف چند لوگ کھل کر سازشی نظریات کی حمایت کرتے ہیں، لیکن ایسا لگتا ہے کہ عام آبادی میں مسلمانوں کے بارے میں گہرا خوف پایا جاتا ہے۔ 2017 میں ہونے والے ایک سروے سے پتہ چلتا ہے کہ 30% نارویجن اس بیان سے متفق ہیں کہ مسلمان یورپ پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔

اس سروے میں یہودیوں اور مسلمانوں پر تحقیق کی گئی اور نتیجہ یہ نکلا کہ تقریباً ایک تہائی آبادی مسلمانوں کے خلاف واضح تعصب رکھتی ہے۔ اگرچہ لوگوں کی اکثریت (80%) کے خیال میں ناروے میں اس طرح کے رویے عام ہیں، لیکن صرف کچھ لوگ اسلامو فوبیا سے نمٹنے کے لیے کچھ کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔ ناروے میں بہت سے مسلمان اسلام کے نام پر ہونے والی دہشت گردی اور غیر انسانی کارروائیوں کے لیے خود کو مجرم سمجھتے ہیں۔

ناروے کی سیاست میں، اسلامو فوبیا کا رویہ پہلی بار 2009 کے آس پاس نمودار ہوا جب پروگریس پارٹی (FrP) کے رہنما سیو جینسن نے "اسٹیلتھ اسلامائزیشن" یا "خفیہ اسلامائزیشن" کی اصطلاح وضع کی۔

اسلامائزیشن (اسلامی بنانے) کی ایک مثال یہ دی جاتی تھی کہ جب ولی عہد شہزادہ ہاکون نے 2019 میں ایک اسلامی مرکز کا دورہ کیا تو ایک مسلمان خاتون نے ان سے مصافحہ کرنے سے انکار کیا۔

 

سیان SIAN کی ویب سائٹ کا کہنا ہے کہ اسلام "ناروے کے آئین اور معاشرے کے خلاف" ایک نظریہ اور تحریک ہے۔ مزید یہ کہ ان کا دعویٰ ہے کہ اسلام دنیا بھر میں جمہوری اور انسانی اقدار سے مطابقت نہیں رکھتا۔ ان کا دعویٰ ہے کہ وہ نسل پرست نہیں ہیں۔ تاہم تنظیم کے رہنما لارس تھورسن کو اس سے قبل مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز تقاریر کا مجرم قرار دیا جا چکا ہے۔

 

4097332

 

نظرات بینندگان
captcha