ایکنا نیوز، عربی پوسٹ نے لکھا ہے کہ سلطان سونگای عسکیا محمد، جو "عسکیای کبیر" کے نام سے مشہور تھے، پندرھویں صدی کے آخر میں مغربی افریقہ کے اسلامی سلطنت سونگای کے حاکم تھے۔ یہ علاقہ تاریخ کی خوشحال ترین اسلامی سلطنتوں میں شمار ہوتا ہے۔
ان سے منقول ایک قول کے مطابق: "دفاع کے لیے وقف وقت سب کے لیے منصفانہ ہونا چاہیے، اور شہادت صرف ایسے افراد سے قبول کی جائے جن کا اخلاق بے عیب ہو۔ بادشاہ کے قریب عدالتی حکام نہ مقدمے سے پہلے اور نہ بعد میں رشوت لے سکتے ہیں، اور مدعیوں سے تحفہ لینا بھی ناقابلِ قبول ہے۔" یہ نصیحتیں بھی تیمبکتو کے نسخ خطی میں محفوظ ہیں۔
علمی اور روحانی مرکز
تیمبکتو ایک قدیم تجارتی راستے پر واقع ہے جہاں شمالی افریقہ کا نمک، جنوبی صحرائی افریقہ کے سونے اور غلاموں کے بدلے میں فروخت ہوتا تھا۔ روایت کے مطابق، اس کا نام "چاہِ بوکو" سے ماخوذ ہے، جو ایک طوارق خاتون کا نام تھا۔ یہ جگہ طوارق قبائل کے لیے سفر کے دوران آرام گاہ تھی۔
تیمبکتو، ولاتہ اور شنقیط کے ساتھ مغربی افریقہ کے اہم اسلامی مراکز اور قافلوں کی بڑی منزلیں تھیں۔ یہاں کھجور، نمک، کپڑا، کتابیں، سونا، ریشم، شتر مرغ کے پر اور دیگر صحراوی اشیا کی تجارت ہوتی تھی۔
سولہویں صدی میں یہ شہر اسلامی تعلیم، علما، قاضیوں اور مصنفین کا مرکز بن گیا اور آگے چل کر تجارت، تصوف اور علم کا ایک فعال مرکز کہلایا۔ اسی وجہ سے اسے "۳۳۳ اولیاء کا شہر" بھی کہا جاتا ہے۔
فرانسیسی قبضہ اور لوٹ مار
فرانسیسی قبضے کے دوران، شہر اور اس کے باشندے فرانسیسی فوجیوں کی بربریت کا شکار ہوئے۔ انہوں نے مقامی مزاحمت کو دبانے کے ساتھ ساتھ کتابخانوں اور نسخ خطی کے ذخائر کو بھی لوٹ لیا اور قیمتی اسلامی مخطوطات فرانس منتقل کر دیے۔
چونکہ نوآبادیاتی دور میں مالی میں تعلیم زیادہ تر فرانسیسی زبان میں دی جاتی تھی اور عربی استعمال نہیں کی جاتی تھی، اس لیے یہ مخطوطات مقامی تعلیم یافتہ طبقے کی نظر سے اوجھل رہے۔ اس کے باوجود، کچھ مقامی خاندانوں نے ان قیمتی نسخوں کو چھپا کر محفوظ رکھا۔
عالمی اہمیت اور حفاظت
وقت کے ساتھ مغربی میڈیا نے تیمبکتو کو "عجائبات کا شہر" کے طور پر پیش کیا، جس نے سیاحوں کو متوجہ کیا۔ یونسکو نے 1990ء میں تیمبکتو کو عالمی ورثہ قرار دیا اور اس کے علمی و فکری ماضی کو تسلیم کیا۔
2003ء میں "جنوبی افریقہ-مالی مخطوطہ منصوبہ" شروع ہوا، جس کے تحت 2009ء میں ایک نئی لائبریری قائم کی گئی تاکہ نسخ خطی محفوظ کیے جا سکیں۔
گوگل نے بھی 40 ہزار سے زیادہ نسخ خطی کو ڈیجیٹلائز کر کے محفوظ کیا۔ لیکن اصل نسخے اب بھی ایک انمول خزانہ ہیں۔ ان میں بعض مخطوطات سونے سے لکھے گئے ہیں، جیسے کہ کتب خانہ امام سیوطی کے نادر مخطوطات، جس میں ایک سولہویں صدی کا قرآن بھی شامل ہے جو خالص سونے سے لکھا گیا ہے۔ اس لائبریری کے قدیم ترین نسخے بارہویں صدی عیسوی سے تعلق رکھتے ہیں۔/
4281805