ایکنانیوز- اسلام ٹائمز۔ سانحہ نائن الیون اور دنیا بھر میں اسلام کے نام پر پھیلائی جانے والی دہشت گردی و شدت پسندی کے تانے بانے امریکہ سے ملنے کا انکشاف ہوا ہے۔ پاکستانی نجی نیوز چینل ایکسپریس نیوز کے پروگرام ’’ایٹ کیو ود احمد قریشی‘‘ میں میزبان نے تجزیاتی رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ امریکی و یورپی خفیہ ایجنسیوں نے ’’اسلام‘‘ پر قبضہ کرکے اسے اپنا ’’ادارہ‘‘ بنا لیا ہے، جبکہ دنیا کا سب سے بڑا مدرسہ یونیورسٹی آف نبراسکا، امریکہ میں ہی واقع ہے، جو شدت پسندوں کی نرسری ہے، جہاں سب سے پہلے جہادی لٹریچر لکھا گیا اور یہ کام 1981ء میں شروع ہوا۔ یہاں تشدد پر مبنی کتابیں کروڑوں کی تعداد میں شائع کرکے پاکستان کے راستے افغانستان پہنچائی گئیں، اس کی تصدیق امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ میں 23 مارچ 2002ء کو چھپے آرٹیکل The ABC’S OF JIHAD IN AFGHANISTAN میں کی گئی۔
القاعدہ اور اسامہ بن لادن سی آئی اے کی پیداوار تھے، جنھیں امریکہ نے روس کیخلاف استعمال کیا، اسامہ بعدازاں باغی ہوگیا تو اسے مار دیا گیا۔ صدر ریگن کے دور میں نیشنل سکیورٹی ایجنسی (این ایس اے) کے ڈائریکٹر جنرل ولیمز اوڈم نے ایک بیان میں اعتراف کیا تھا کہ کسی بھی پیمانے سے دیکھیں، امریکہ شدت پسندی کے فروغ میں شامل رہا ہے۔ 1978ء میں جب امریکی سینیٹ عالمی دہشتگردی کیخلاف قانون بنانا چاہ رہی تھی، تو معلوم ہوا کہ جس جہت یا زاویے سے بھی دیکھیں، امریکہ خود قانون شکن نظر آتا ہے۔ انھوں نے اس خفیہ ہتھیار کو چیچنیا، بوسنیا، افغانستان، چین، عراق، لیبیا اور شام میں استعمال کیا۔
احمد قریشی نے بتایا کہ داعش کا بانی ابوبکر البغدادی، بوکو حرام کا سرغنہ اور ٹی ٹی پی کا عبداللہ محسود بھی گوانتانامو جیل میں رہا۔
عبداللہ محسود کو رہائی کے بعد پاکستان کے بجائے افغانستان کے حوالے کیا گیا، جہاں برین واش کے بعد پاکستان داخل کیا گیا، اس نے چینی انجنیئروں کو قتل کیا۔ بی ایل اے کے براہمداغ بگٹی کے بھی امریکا سے رابطے ہیں، بعد ازاں اسے سوئٹرز لینڈ پہنچا دیا گیا، جہاں اسے ابھی تک سیاسی پناہ نہیں ملی۔
احمد قریشی نے مغربی صحافیوں کی رپورٹوں کے حوالے دیتے ہوئے کہا کہ برطانیہ شدت پسندوں کی سب سے بڑی پناہ گاہ ہے، ’’جہادی جان‘‘ بھی برطانوی شہری ہے، جبکہ آئی ایس آئی ایس پورے یورپ سے بھرتیاں کر رہی ہے، اور اسے کوئی روکنے والا نہیں۔ یہ دہشتگرد تنظیمیں شام، عراق، لیبیا، نائیجریا اور صومالیہ کے ان علاقوں میں بنائی گئیں، جہاں تیل یا امریکی مفادات ہیں۔
اسلام آباد میں لال مسجد کی طالبات ڈنڈوں سے لیس اور کیمیائی ماسک پہنے برآمد ہوتی ہیں، جبکہ مولانا عبدالعزیر نے داعش کی حمایت کا اعلان کیا کہ وہ اس لئے آئی ایس آئی ایس کی سپورٹ کرتے ہیں، کیونکہ وہ خلافت کی داعی ہے، جس کے بعد پاکستان کے مختلف شہروں میں جذبات میں آکر داعش کے حق میں وال چاکنگ کی گئی۔ مقبوضہ کشمیر میں بھی داعش کے جھنڈے لئے نقاب پوش نوجوان نظر آئے، جیسے وہ خفیہ ایجنسی کے اہلکار ہوں۔ بھارت نے بھی اسلام کو اپنے انٹیلیجنس سیٹ اپ میں ’’ادارہ‘‘ بنا کر سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کیا۔ دارالعلوم دیوبند کے فارغ التحصیل طلباء کو اپنی خفیہ ایجنسی میں بھرتی کیا، پھر افغانستان، پاکستان اور سنکیانگ میں استعمال کیا۔ ان سے فتوے نکلوائے کہ مغرب اور کفار کے ساتھ لڑنے سے پہلے مسلمانوں کو قتل کرنا حلال ہے۔ آئی ایس آئی پر بھی مدارس بنانے کے الزام لگائے گئے، تاہم اس نے امریکا کی طرف سے افغانستان میں چھوڑے ہوئے کام کو آگے بڑھایا، جس کے علاوہ شاید کوئی اور چارہ نہ تھا۔ اسرائیل نے حماس کا تجربہ بھارت کو بھی سکھایا کہ کشمیری تحریک پر کس طرح قابو پانا ہے۔