ایکنا نیوز- بارہ سال بعد شام کو عرب لیگ میں دوبارہ شامل کرلیا گیا ہے اور قاہرہ میں عرب لیگ کی خصوصی نشست میں اس کے حق میں فیصلہ سامنے آیا ہے۔
عرب لیگ نے شام کی تشکیل نو یا مرمت سازی بارے اقوام متحدہ کی قرارداد کے مطابق انسان دوستانہ امداد پر بھی تاکید کی ہے۔
شام نے اس فیصلے کو خوش آیند قرار دیتے ہوئے اس عرب ممالک اور علاقے کی بہتری سے تعبیر کیا ہے۔
شام کو عرب لیگ سے سال ۲۰۱۱ میں امریکی اور مغربی منصوبے کے تحت سعودی ، امارات اور قطر کی حمایت سے نکال دیا گیا تاکہ علاقے کا نقشہ تبدیل کرکے علاقے پر امریکی و صہیونی تسلط کو مضبوط کرانا تھا جس کا مقصد ایران پر دباو ڈالنا تھا۔
قطر کے سابق وزیر خارجہ حمد بن جاسم، کویتی پروگرام القبس سے گفتگو میں واضح کیا کہ سابق سعودی انٹلی جنس افیسر کے منصوبے کو بیان کیا جسکا مقصد شام کو نابود کرنا تھا۔
حمد بن جاسم، کے مطابق سعودی چیف انٹیلی جنس بندر بن سلطان نے اجلاس جس میں سعودی عرب امارات، قطر اور ترکی کے علاوہ امریکی وزیر دفاع موجود تھے۔
آج شام کے بحران پر ایک نظر ڈال کر بخوبی اس امر کو سمجھ سکتے ہیں مخالفین نے شام میں آزاد فوج بنا کر دمشق پر حملہ کیا جس کا آغاز سال 2012 سے ہوا تاہم پوری توانائی صرف کرکے بھی مخالفین کے لاو لشکر کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
عرب لیگ کے سابق جنرل سیکریٹری احمد ابوالغیط، نے لبنانی میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ جب مخالفین کی فوج کو دمشق حملے میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا اسی وقت بشار جنگ جیت گیا تھا۔
اس حؤالے سے شام کی عرب لیگ میں واپسی کو ایک سیاسی ضرورت کہا جاسکتا ہے جو میدان کا اثر شمار کیا جاتا ہے۔
اس کی اہم ترین وجہ شام کی حکومت کی شکست ناپذیری ہے جو مقاومت اور شامی عوام کی استقامت اور ایرانی کی مدد کا شاخسانہ ہے۔
لبنانی الاخبار کے مطابق شامی صدر نے کہا تھا کہ شام فیصلہ کرے گا کہ ان ممالک سے کیسا رویہ رکھا جائے جنہوں نے جنگ میں اس کے خلاف شرکت کی تھی تاہم اپنے اندورونی مسائل پر وہ کسی ملک سے بات چیت نہیں کرے گا۔
لہذا بخوبی کہا جاسکتا ہے کہ عرب لیگ میں شام کی واپسی تمام امریکی مغربی اور صہونی پروجیکٹ کی ناکامی کی علامت اور مقاومت کی بھرپور کامیابی ہے۔
بظاہر لگتا ہے کہ سعودی اور امارات کی پالیسی میں تبدیلی اور دیگر ممالک کی حمایت نے اس اقدام کو آسان کردیا ہے۔/
4139520