ایرانی مفسر اور دانشور آیتالله سیدمصطفی محقق داماد تفسیر قرآن کریم، کے درس میں سوره شعرا کی تفسیر میں یوں فرماتے ہیں:
حضرت ابراهیم اپنی بت پرست قوم سے کہتا ہے، اے میری قوم، جب تم اپنے خداوں کو پکارتے ہو تو وہ تمھاری آواز سنتے ہیں؟
اگر سنتے ہیں تو کیا تمھاری دعا قبول کرتے ہیں اور تمھیں نفع پہنچا سکتے ہیں۔ اگر گناہ کرو تو وہ تمھیں نقصان پہنچا سکتے ہیں؟
ان افراد کے عمل سے واضح ہوتا ہے کہ وہ سوچ میں ڈوب گیے تھے لہذا جواب دیا کہ اے ابراہیم ھم اپنے اجداد کی تقلید میں ایسا کرتے ہیں۔
پرستش کا مسئله اہم ترین عقیدتی امر ہے جس میں تقلید کی گنجایش نہیں بلکہ انسان کو خود عقل و فکر سے اس میں معبود کا انتخاب کرنا چاہیے۔ «قَالُوا بَلْ وَجَدْنَا آبَاءَنَا كَذَلِكَ يَفْعَلُونَ»(شعراء، 74)
یہاں پر ابراہیم کو موقع ملتا ہے کہ وہ سوال کریں؟ جناب ابراهیم یہاں محبت و دشمنی کی بات کرتے ہیں کہتا ہے کہ تمھارے معبود میں محبت کا رشتہ ہونا چاہیے. معبود کو محبوب ہونا چاہیے، قرآن کہتا ہے: «یحبهم و یحبونه». ابراہیم رب کے بارے میں فرماتے ہیں: «انی لااحب الافلین».
یہاں پر ابراهیم اپنے رب کی تعریف سادہ الفاظ میں یوں فرماتے ہیں رب العالمین پکارنے والوں کی آساز سنتا ہے اس نے مجھے خلق کیا ہے: «الَّذِي خَلَقَنِي فَهُوَ يَهْدِينِ». ہم نہیں تھے اس نے خلق کیا، کس لیے؟ کس نے خلق کیا ہے؟ رب نے خلق کیا فضول خلق نہیں کیا اور اس کا ایک مقصد تھا، لہذا اس نے ہدف کی طرف ہدایت کی، کیا بت ہدایت کرسکتی ہے؟
دوسری بات میرا خدا مجھے سیراب کرتا ہے: «وَالَّذِي هُوَ يُطْعِمُنِي وَيَسْقِينِ». جب میں کھاتا ہوں تو کون مجھے سیر کرتا ہے؟ اگر میں بیمار ہوجاوں تو مجھے شفا دیتا ہے،: «وَإِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ يَشْفِينِ». دوائی بظاہر ایک وسیلہ ہے اصل میں وہ شفا دیتا ہے اور جب میں مرتا ہوں تو وہ مجھے دوبارہ زندہ کرتا ہے
«وَالَّذِي يُمِيتُنِي ثُمَّ يُحْيِينِ». اس طرح سے ابراہیم توحید اور معاد کی بنیاد بتاتا ہے. یہ وہ چیزیں تھیں جو بت پرست نہیں کہہ سکتے کہ بت ایسا کرسکتی ہے. اور آخری نکتہ یہ بیان کرتا ہے کہ اگر میں غلطی کروں تو میں بخشش مانگتا ہوں اور وہ مجھے بخش دیتا ہے: «وَالَّذِي أَطْمَعُ أَنْ يَغْفِرَ لِي خَطِيئَتِي يَوْمَ الدِّينِ».
ابراهیم یہاں دعا شروع کرتے ہیں تاکہ آداب دعا سکھائے. شروع میں خدا کی حمد و ثنا کریں، پھر دعا کرتے ہیں: «رَبِّ هَبْ لِي حُكْمًا وَأَلْحِقْنِي بِالصَّالِحِينَ» یہاں حضرت ابراهیم یہ چیز اپنے لیے اور اپنی نسلوں کے لیے طلب کرتے ہیں. ابراهیم خدا سے حکمت طلب کرتا ہے اور یہ حکمت ایسی الھی نعمت ہے جو بلا معاوضہ ہے۔ سقراط و افلاطون کی حکمت درس و تدریس سے ملتی ہے تاہم الھی حکمت خاص عنایت رب ہے۔/