سید علی حسینی نے قزاقستان میں منعقد ہونے والے بین الاقوامی قرآنی مقابلوں کی تیاری کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا: حفظِ قرآن انسان کے ضائع شدہ وقت کو زندہ کر دیتا ہے۔ جو شخص قرآن کو یاد کرنے کا عزم کرتا ہے، وہ یہ نہیں سمجھتا کہ اسے سارا وقت صرف تکرار اور تثبیت میں گزارنا ہے اور اپنی دیگر ذمہ داریوں سے غافل ہونا ہے۔ بلکہ وہ چلتے پھرتے، نمازوں کے درمیان، سفر کے دوران یا حتیٰ کہ نان لینے کی قطار میں کھڑے ہوتے ہوئے بھی اپنے ‘مردہ اوقات’ کو بامقصد بنا سکتا ہے۔
قزاقستان میں دوسرا بین الاقوامی قرآن کریم مقابلہ 14 تا 17 اکتوبر 2025 (مطابق 22 تا 25 مهر 1404 شمسی) منعقد ہوگا، جو وسطی ایشیا کے نئے اور ابھرتے ہوئے قرآنی مقابلوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ یہ مقابلہ صرف شعبۂ حفظِ قرآن تک محدود ہے، جس میں دنیا بھر سے بہترین حفاظِ کرام شرکت کریں گے۔
حجتالاسلام سید علی حسینی (استانِ قم، ایران) کو سازمان اوقاف و امور خیریہ کے قرآنی امور کے مرکز کی جانب سے اور کمیٹی برائے اعزام و دعوت قراء کے انتخاب کے بعد اسلامی جمہوریہ ایران کے نمائندے کے طور پر ان مقابلوں میں شرکت کے لیے نامزد کیا گیا ہے۔
ایکنا کے ساتھ خصوصی گفتگو میں سید علی حسینی نے اپنے قرآنی سفر کے بارے میں بتایا: میں نے قرآن سیکھنے کا آغاز سات سال کی عمر میں کیا۔ میرے والدین میرے سب سے بڑے محرک تھے، جنہیں قرآن سے خاص انسیت ہے۔ میرے بڑے بھائی مجھ سے پہلے حافظِ قرآن بن چکے تھے، اور یہی چیز میرے لیے مزید حوصلے اور تحریک کا باعث بنی۔
جب ان سے قرآن کے ذاتی زندگی پر اثرات کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا: قرآن نے میری زندگی کے تمام پہلوؤں پر گہرا اثر ڈالا ہے — تعلیمی، روحانی اور حتیٰ کہ زندگی کے فیصلوں میں بھی۔ حفظِ قرآن نے مجھے کلامِ الٰہی سے گہری وابستگی عطا کی ہے، جو بے شمار برکات کا باعث بنی۔
انہوں نے مزید کہا: قرآن حافظِ قرآن کے لیے خود ایک محافظ اور پناہ گاہ بن جاتا ہے۔ جیسا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ‘جب فتنے تم پر تاریک رات کے ٹکڑوں کی طرح چھا جائیں، تو تم پر لازم ہے کہ قرآن کو مضبوطی سے تھامے رکھو۔
یاد رہے کہ سید علی حسینی نے چھیالیسویں قومی قرآن کریم مقابلے (آذر 1403) کے حفظِ کل کے زمرے میں فائنل مرحلے تک رسائی حاصل کی تھی۔/
4309505