
ماضی میں بعض مسلمان علما کا یہ خیال تھا کہ قرآن کو کسی دوسری زبان میں ترجمہ کرنا جائز نہیں، مگر اب اس معاملے میں کوئی اختلاف باقی نہیں رہا۔ آج اہلِ دین ترجمۂ قرآن اور دیگر اسلامی کتب کو دینی رہنمائی کی ایک صورت سمجھتے ہیں۔ قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ فارسی وہ پہلی اور قدیم ترین زبان ہے جس میں قرآن کریم کا ترجمہ کیا گیا۔ روایات کے مطابق، قرآن کے چند آیات کا پہلا ترجمہ اُس وقت ہوا جب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خسرو پرویز کو ایک خط بھیجا، جسے حضرت سلمان فارسیؓ نے فارسی میں منتقل کیا۔ کہا جاتا ہے کہ سلمان فارسیؓ نے «بسم الله الرحمن الرحیم» کو فارسی میں «به نام یزدان بخشاینده» (بنام یزدان بخشایندہ) ترجمہ کیا، اور بعض کے نزدیک انہوں نے سب سے پہلے سورۂ حمد کا فارسی ترجمہ کیا۔

محمدعلی کوشا، ۱ فروردین ۱۳۳۱ ہجری شمسی (۱۹۵۲ء) کو بیجار میں پیدا ہوئے۔ وہ ایک مجتہد، فقیہ، مفسرِ قرآن، مترجم، اور مدرسِ سطوحِ عالیہ ہیں۔ انہوں نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ قرآن فہمی، تفسیر اور خصوصاً ترجمۂ قرآن کے لیے وقف کیا۔ انہوں نے تقریباً ۲۰۰ تراجمِ قرآن کا تنقیدی جائزہ لیا ہے، اور وہ قرآن کے ترجمے پر سب سے زیادہ علمی تنقید کرنے والے ماہر کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ اسی کے ساتھ وہ حوزۂ علمیہ میں فنِ ترجمۂ قرآن کی اعلیٰ تعلیم کے بانیوں میں سے ہیں۔ گزشتہ دہائی میں ان کا نام شیوا، روان اور عام فہم ترجمۂ قرآن کے حوالے سے نمایاں رہا ہے۔

سوال: آج جب نئے تراجمِ قرآن کا سلسلہ تیزی سے بڑھ رہا ہے، کیا طریقہ اپنایا جائے تاکہ یہ تراجم مؤثر، بامعنی اور قاری کے لیے کشش پیدا کرنے والے ہوں؟
جواب: سب سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ترجمہ محض لفظی تبدیلی نہیں، بلکہ ایک زبان سے دوسری زبان میں متن کو منتقل کرنے کا عمل ہے، جس میں دونوں زبانوں کے قواعد کا لحاظ ضروری ہے۔ ترجمۂ قرآن میں دو بنیادی پہلوؤں پر خصوصی توجہ دینا لازمی ہے:

1. ادبی پہلو — جس میں صرف، نحو، لغت اور اشتقاق شامل ہیں۔
2. بلاغی پہلو — جس میں معانی، بیان اور بدیع کے اصول آتے ہیں۔
قرآن کو مختلف زبانوں (انگریزی، جرمن، روسی، چینی، ہسپانوی، اور خصوصاً فارسی) میں ترجمہ کرنے کی ضرورت نہ صرف ایک ثقافتی ضرورت ہے بلکہ علمی و دینی ذمہ داری بھی۔ لہٰذا حوزہ اور یونیورسٹیوں کے طلبا کو فنِ ترجمہ میں مہارت حاصل کرنی چاہیے تاکہ وہ قرآن کا پیغام مختلف زبانوں میں درست طریقے سے پہنچا سکیں، موجودہ خامیوں کی اصلاح کریں اور نئے معیار کے تراجم پیش کریں۔
1. روشن اور واضح ہونا: قرآن خود کو "مبین" (روشن اور روشنگر) قرار دیتا ہے: «تِلْکَ آیَاتُ الْکِتَابِ وَقُرْآنٍ مُبِینٍ» اس لیے ترجمہ بھی ایسا ہو جو مفہوم کو صاف اور واضح انداز میں منتقل کرے۔
2. آسان اور قابلِ فہم ہونا: قرآن فرماتا ہے: «وَلَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّکْرِ» یعنی ہم نے قرآن کو یاددہانی کے لیے آسان بنا دیا۔ پس ترجمہ بھی ایسا ہو کہ ہر قاری سمجھ سکے۔
3. پیچیدگی اور کجی سے پاک ہونا: «الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِی أَنْزَلَ عَلَىٰ عَبْدِهِ الْکِتَابَ وَلَمْ یَجْعَلْ لَهُ عِوَجًا» ترجمہ میں تعقید یا غیر فطری جملہ بندی نہیں ہونی چاہیے۔
4. شیوا اور بلیغ ہونا: جیسا کہ قرآن خود فصاحت و بلاغت کا اعلیٰ نمونہ ہے، ترجمہ بھی ادبی لحاظ سے خوبصورت، رسا اور غیر عامیانہ ہونا چاہیے۔/
4308287