ایکنا نیوز- قرآن کریم کے ایک سو چودہویں سورے کا نام "ناس" ہے جسمیں چھ آیات ہیں اور یہ سورہ تیسویں پارے میں ہے۔ترتیب نزول کے حؤالے سے یہ اکیسواں سورہ ہے جو رسول گرامی اسلام پر اترا ہے۔
اس سورے کو ناس اس وجہ سے کہا جاتا ہے کہ اس میں یہ لفظ تین بار آیا ہے اور اس سورے کو پڑھکر انسان شیطانی وسوسوں سے محفوظ ہوسکتا ہے۔
خدااس سورے میں پیغمبر اسلام (ص) کو حکم دیتا ہے کہ شیطان کے شر سے محفوظ رہنے کے لیے خدا کی پناہ مانگے۔
اس سورہ میں پانچ بار لفظ " ناس" آیا ہے اور مفسرین کا خیال ہے کہ ناس کا عام معنی لوگ ہے، دوسرا ناس یہاں پر وہ لوگ مخاطب ہے جو شیطانی وسوسوں کی زد میں ہے اور تیسرا ناس وہ لوگ ہیں جو خود وسوسہ کرتے ہیں۔
انسان جب کسی شر کا سامنا کرتا ہے جس سے وہ مقابلے کی طاقت نہیں رکھتا تو وہ کسی طاقتور کی پناہ لیتا ہے جو اسکو محفوظ کرتا ہے، خدا جو حقیقی معبود وہ اس خصوصیت کے حامل ہے کہ وہ حاکم ہے اور معبود بھی اور انسان کو چاہیے کہ مشکل میں اسکی پناہ طلب کرے۔
اس سورے میں شیطان کو «وسواس الخناس» (چھپ کر وسوسه کرنے والا) کہا گیا ہے مفسرین کا کہنا ہے کہ شیطان مسلسل انسان کو وسوسہ کرتا ہے تاکہ خدا کی یاد سے غافل کرسکے اور جب انسان خدا کو یاد کرتا ہے تو وہ چھپ کرپیچھے ہٹتا ہے اور جب فراموش کرتا ہے تو سامنے آتا ہے اور وسوسہ شروع کرتا ہے تاکہ پرکشش چیزوں سے فریب دے۔
جو کچھ سورہ میں آیا ہے اس کے مطابق سینہ شیطان کے وسوسوں کا مرکز ہے کیونکہ شعور و فکر کی جگہ معمولا دل کو بتایا جاتا ہے۔
وسوسہ کرنے والے گروہ کے بارے میں کہا گیا ہے:
«مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ: جو جن و [چه از] انس سے ہے» (ناس/ 6). پس وسوسہ کرنے والا جن ہوسکتا ہے اور یا انسان نما شیطان، بعض لوگ اس قدر گمراہ ہے کہ وہ دوسروں کو بھی گمراہ کرتا ہے اور شیطان کی طرح خطرناک ہے۔/