ایکنا نیوز- آیات قرآن کی موضوع بندی سے ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ خدا نے قرآن کا ایک حصہ اپنی صفات اور أسماء سے مختص کردیا ہے جسمیں وہ اپنی تعریف کرتا ہے، مثال کے طور پر ایک جگہ ارشاد ہوتا ہے
: « لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ ۖ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ ؛ اس خدا واحد کو کوئی مثال نہیں اور سننے والا اور دیکھنے والا ہے (شوری:11)
امام علی (ع) خطبه 91 نهج البلاغه میں ایک قانون کو بیان کرتے ہیں تاکہ وہ گمراہی و ضلالت سے دور رہے۔
: « فَانْظُرْ أَيُّهَا السَّائِل! فَمَا دَلَّکَ الْقُرْآنُ عَلَيْهِ مِنْ صِفَتِهِ فَأئْتَمَّ بِهِ ؛ اے جو خدا کی صفات بارے سوال کرتے ہو، درست دیکھو جو قرآن نے صفات بیان کیا ہے اس کی پیروی کرو» (نهج البلاغه: خ91)
اس قاعدے کے مطابق جس چیز کو قرآن و معصومین نے بیان کیا ہے انسان کی ذمہ داری بنتی ہے انسان کو اپنی حد کا اندازہ ہو اور اس سے باہر نہ نکلے۔
خدا کی صفات لامحدود ہیں یعنی خدا کی مہربانی یا عدالت کے لیے کوئی حد معین کرنا ممکن نہیں۔ انسان اسی لامحدود کی درست حقیقت کو درک نہیں کرسکتا لہذا وہ معصوم کی رہنمائی کے بغیر کیسے بات کرسکتا ہے؟
ایک خطرہ جو کسی اچھے استاد کے بغیر لاحق ہوسکتا ہے تشبیہ کے کنویں میں گرجانا ہے یعنی انسان خدا کی صفات کو کسی انسان کی صفات سے تشبیہ دے اور خدا کو بھی محدود سمجھے۔
یا ایسی صفت خدا کے لیے قرار دے جو خدا میں نقص شمار ہوتا ہو، مثال کے طور پر نعوذ بالله خدا کے لیے انسان کی طرح جسم فرض کرے یا اسے کسی زمان ومکان میں محدود قرار دے۔
حالانکہ اگر امیر المومنین کے قاعدے کی طرف رجوع کرے تو اندازہ ہوتا ہے کہ ایسے نظریے مردود ہیں کیونکہ قرآن فرماتا ہے:« لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ ؛ وہ خدا جس کا کوئی نظیر یا مثال نہیں.»
پس قاعدے کے مطابق خدا کی صفات کو معصومین کے فرمان کی نظر میں درک کرنا چاہیے نہ کم نہ زیادہ۔۔۔