ایکنا نیوز کے مطابق حال ہی میں شائع ہونے والی ایک انسانی حقوق کی رپورٹ کے مطابق بھارت میں مسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف نفرت اور تشدد پر مبنی جرائم میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ رپورٹ تصدیق کرتی ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی (BJP) کی حکومت، جس کی قیادت نریندر مودی کر رہے ہیں، کے تحت یہ مظالم منظم اور ادارہ جاتی شکل اختیار کر چکے ہیں۔
یہ رپورٹ انجمن حمایت از حقوق مدنی (Association for Protection of Civil Rights) نے کویل فاؤنڈیشن کے اشتراک سے تیار کی ہے، جس میں 7 جون 2024 سے 7 جون 2025 تک 947 نفرت انگیز جرائم کو دستاویزی شکل دی گئی ہے، جن میں سے اکثر واقعات کے متاثرین مسلمان تھے۔
اہم نکات
345 نفرت آمیز تقاریر میں سے 178 براہ راست حکمران جماعت BJP کے اراکین، بشمول وزیر اعظم مودی اور ریاستی وزرائے اعلیٰ سے منسوب کی گئی ہیں، جس سے ان کی براہِ راست اکسانے والی ذمہ داری واضح ہوتی ہے۔
یہ تقاریر اکثر تشدد سے قبل یا اس کے دوران کی جاتی ہیں اور ایک ایسا ماحول پیدا کرتی ہیں جس میں حملہ آوروں کو خاموش حمایت ملتی ہے، جو ان کے حوصلے بلند کرتی ہے۔
419 حملے مسلمانوں پر کیے گئے، جن کے نتیجے میں:
25 افراد جاں بحق
1400 سے زائد زخمی
85 عیسائی مراکز (بشمول چرچ، پادری اور عبادت گاہیں) پر حملے کیے گئے، جن سے 1500 سے زیادہ افراد متاثر ہوئے۔
حملوں کا دائرہ صرف بڑوں تک محدود نہیں رہا:
32 مسلمان بچوں کو نشانہ بنایا گیا۔
10 بزرگ افراد بھی حملوں کا نشانہ بنے، جن میں ایک عیسائی پادری بھی شامل ہے، جسے مدد کی اپیل کے دوران پولیس اسٹیشن کے اندر مارا گیا۔
87 فیصد سے زائد کیسز میں کوئی باقاعدہ تفتیش نہیں ہوئی، جو بھارتی عدالتی نظام کی ناکامی کو ظاہر کرتا ہے، خاص طور پر BJP کے زیرِ اقتدار ریاستوں میں۔
سب سے زیادہ واقعات درج کیے گئے:
اُتر پردیش: 217 واقعات
مدھیہ پردیش، مہاراشٹر اور جھارکھنڈ بھی شدید متاثرہ ریاستیں ہیں۔
یہ رپورٹ بھارت میں اقلیتوں، بالخصوص مسلمانوں کے خلاف بڑھتے ہوئے تشدد، امتیازی سلوک اور حکومتی چشمپوشی کا ایک سنگین ثبوت ہے، جو عالمی سطح پر انسانی حقوق کے اداروں کی توجہ کا متقاضی ہے۔/
4291651